عید لااضحی سب سے مہنگا تہوار

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

یوں تو مسلمانوں کے لیے عیدالا ضحی ایک مذہبی تہوار ہے جس میں مسلمان جانوروں کی قربانی دے کر سنت ابراہیمی ادا کرتے ہیں تاہم اب یہ تہوار ایک وسیع کاروبار کی حیثیت اختیار کر چکا ہے جس میں صرف جانوروں کی خرید و فروخت ہی نہیں بلکہ اس سے منسلک مختلف نوعیت کے کاروبار بھی چمک اٹھتے ہیں۔

معاشیاتی زبان میں کہا جائے تو عید الاضحی پر سرکولیشن آف ویلتھ کا سب سے زیادہ چکر چلتا ہے، ملک بھر میں عید الاضحی کے موقع پر مویشی منڈیاں صرف مخصوص مقامات پر ہی نہیں لگتیں بلکہ غیر قانونی چھوٹی چھوٹی منڈیاں بھی علاقہ پولیس اور ضلعی انتظامیہ کے غیر اعلانیہ تعاون سے لگتی ہیں، جہاں سڑکوں پر جانور بکتے ہیں اور ان غیر قانونی منڈیوں میں بھی کروڑوں روپے کا کاروبار ہوتا ہے۔

ایک محتاط اندازے کے مطابق ملک بھر میں عید الاضحی کے موقع پر ساڑھے چار کھرب کے جانوروں کی خرید و فروخت ہوتی ہے۔اکثر مویشی دیہات میں کھیتوں میں اگنے والے خودروپودے اورگھاس پھوس پر گزر بسر کرتے ہیں تاہم جب یہ جانور منڈی سے ہوکر گھروں  تک پہنچتے ہیں تو ان کی غذا کے لیے منہ مانگے دام چارہ خریدنا پڑتا ہے۔

گھاس، لوسن اور دانہ سب دگنی قیمت میں فروخت ہوتا ہے، اس طرح اربوں روپے کا چارہ عید پر فروخت ہو جاتا ہے۔ عید الاضحی کے خصوصاََ 3 روز اور مجموعی طور پر 5 روز قصابوں کی آمدنی 600 فیصد بڑھ جاتی ہے۔ کہاں ایک دن میں وہی کام کرنے کی ان کی دیہاڑی 15 سو سے 2ہزارہوتی ہے اور عید کے دنوں میں وہ پہلے روز فی قصاب 30ہزار تا 50ہزار جبکہ دوسرے روز 20ہزار تا 40ہزار اور باقی دنوں میں 5ہزار تا 10ہزار آمدنی ہو جاتی ہے۔

قربانی کے جانوروں کی سجاوٹ کے لیے زیورات کے اسٹالز بھی لگائے جاتے ہیں، بڑے شہروں میں ایسا کاروبار کرنے والے کئی لوگ چھوٹے شہروں اور دیہات سے بھی آتے ہیں، کئی لوگ ان دنوں میں گوشت کاٹنے کی مڈّی (لکڑی)، چٹائی، ٹوکرے وغیرہ فروخت کرنے کا بھی کاروبار کرتے ہیں اس سے بھی ملک بھر میں کروڑوں روپے کا کاروبارہوتا ہے۔

عید الاضحی کا چاند دیکھنے سے قبل شہری اپنی چھریاں، بغدے،برچھی پر دھار لگوانے کے لیے چھری تیز کرنے والوں کی دکانوں پر پہنچ جاتے ہیں، اب ایک چھوٹی چھری پر دھار لگانے کا معاوضہ کم از کم 80 روپے اور بڑی چھری پر دھار لگانے کا معاوضہ 150 روپے وصول کیا جانے لگا ہے جبکہ چاپڑ اور بغدے پر دھار لگانے کے 150 تا200 روپے وصول کیے جاتے ہیں۔یہ بھی اربوں روپے کا کاروبار کیا جاتا ہے۔قربانی کے بعد بڑی تعداد میں کھالیں فروخت کی جاتی ہیں جن سے چمڑے کی صنعت کو خام مال کی فراہمی ممکن بنائی جاتی ہے۔

قربانی کے بعد گھروں میں بار بی کیو پارٹیاں منعقد کی جاتی ہیں، اس پارٹی کے لیے جن چیزوں کی ضرورت ہوتی ہے ان میں انگیٹھی، کوئلہ، سیخیں فروخت کرنے کے اسٹال لگاتے ہیں جبکہ سڑکوں کے کنارے چھریوں، چاپڑ، بغدے، برجھی اور چھری تیز کرنے کے لیے مخصوص پتھر، چھری صاف کرنے کے لیے اسٹیل کی راڈ اور دیگر اسٹال لگا کر اپنا روز گار کماتے ہیں، انہیں دنوں میں جگہ جگہ جانوروں کے (ویٹرنری) ڈاکٹرز بھی میدان میں آجاتے ہیں جو بھاری فیسیں لے کر بیمار جانوروں کا علاج کرتے ہیں۔

اکثر جانوروں کے بیمار ہونے کی وجہ ان کی جگہ کی تبدیلی ہوتی ہے جس کے باعث انہیں الرجی اور پیٹ خراب ہونے کی شکایات ہو جاتی ہیں جبکہ ان میں پہلے سے موجود جراثیم جن سے ان کا جسم مدافعت کر رہا ہوتا ہے وہ بھی جگہ تبدیل ہونے کے باعث قوت مدافعت کم ہونے سے متحرک ہوجاتے ہیں اور جانور سخت بیمار ہوجاتے ہیں۔ ان بیمار جانوروں کو اگر اصل ویٹرنری ڈاکٹر میسر آجائے تو صحت مند ہو جاتے ہیں ورنہ جگہ جگہ جعلی ویٹرنری ڈاکٹرز کے باعث جانور بیمار ہو کر مر جاتے ہیں، اس طرح ہزاروں جانور بیمار ہو کر مر جاتے ہیں اور شہریوں کو قربانی کے لیے دوسرے جانور خریدنا پڑتے ہیں۔

بیمار جانوروں کے علاج کی فیس کی مد میں بھی کروڑوں کا کاروبار ہوتا ہے۔ اس طرح تقریباََ ساڑھے چار کھرب روپے کا کاروبار قربانی سے منسلک ہے، اسی لیے شہری اس تہوار کو مسلمانوں کا مہنگا ترین تہوار کہتے ہیں، اسراف کے علاوہ جو بھی مسلمان خرچ کرتے ہیں، وہ در اصل قربانی ہی ہوتی ہے، دیکھا جائے تو اس تہوار پر خرچ کرنا ہی قربانی ہے تاہم اس بات کا خیال رکھنا ضروری ہے کہ یہ قربانی اللہ کے لیے ہوتی ہے، اگر اس میں دکھاوا آجائے تو یہ قربانی رائیگاں  جا سکتی ہے،اسی میں میں قربانی کا درس موجود ہے۔

Related Posts