سانحہ سیالکوٹ کے مضر عالمی اثرات

مقبول خبریں

کالمز

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

 سیالکوٹ میں ہونے والا دلخراش واقعہ جس میں اپنے پیشہ ورانہ فرائض انجام دینے والے سری لنکن شہری جیانتھا کمارا کو جس بیدردی سے قتل کیا گیااورویڈیوز کی شکل میں سامنے آنے والے ہولناک مناظر کوپوری دنیا دیکھ کر دنگ رہ گئی اور پاکستان کے بگڑتے تشخص کو ایک اور دھچکا لگااور اقوام عالم میں اس واقعہ کو جس نگاہ سے دیکھا جارہا ہے اس کےمنفی اثرات ہمیں دیرتک بھگتنا ہونگے۔

ایک ایسے وقت میں جب بین الاقوامی سیاسی منظر نامے کے حوالے سے پاکستان کو نقصان پہنچانے کیلئے دنیا حیلے بہانے تلاش کررہی ہے،ایسے میں سیالکوٹ واقعہ پاکستان کیلئے سلگتی آگ پر چنگاری سے کم نہیں چونکہ یہ کوئی پہلا واقعہ نہیں بلکہ اس قسم کے انسانیت سوز واقعات پہلے ہی پاکستان کیلئے مشکلات کا سبب بنے ہوئے ہیں ۔

سری لنکا پاکستان کا دیرینہ دوست ہے اور اگر یوں کہا جائے کہ جنوبی ایشیاء میں پاکستان کا سب سے اچھا دوست ہے تو بیجا نہ ہوگااور بھارت کے مقابلے میں ہمیشہ پاکستان کے ساتھ کھڑا ہوتا ہےاور اس کے شہری کو ماورائے عدالت ہولناک قتل نے ناصرف پاکستانیوں کے دلوں پر نقوش ڈالے بلکہ دنیا ئے اقوام کی رائے کو پاکستانیوں کیخلاف متنفر کردیا ہے۔دنیا کا یہ بات سمجھنا حق بجانب ہے کہ آخر او آئی سی کے 57 ممالک میں سے صرف پاکستان میں ہی کیوں ایسے جرائم کا ارتکاب ہوتا ہے۔یہ الگ بات ہے کہ بیشتر پاکستانیوں کو یہ علم کہ جو بوؤ گے وہی کاٹو گے۔

افسوس کی بات تو یہ ہے کہ ہمارے وزیردفاع پرویز خٹک فرماتے ہیں کہ “نوجوان جذبات کا شکار ہوگئے”، اقوام عالم اگر یہ دیکھ لیں کہ پاکستان آئین و قانون کے بجائے جذبات پر چل رہا ہے تو ہمارے لئے مشکلات میں اضافہ ایک قدرتی عمل ہے اور اقوام عالم کی پاکستان سے لاتعلقی یا دوری میں مزید اضافہ ہوتا چلا جائیگا اور پاکستانیوں کوبیرون ملک سنجیدگی سے نہیں لیا جائےگااور اس کا پہلا شکار ہمارے تارکین وطن ہوسکتے ہیں۔

سانحہ سیالکوٹ کو بین الاقوامی قوانین کی نگاہ سے دکھا جائے تو یہ انسانی حقوق کے عالمی اعلامیہ کے آرٹیکل 5کی سنگین خلاف ورزی ہے جس میں واضح طور پر یہ درج ہے کہ دنیا میں کسی بھی شخص پرغیر انسانی پرتشدد نہ کیا جائےیااس کو اس قسم کی سزاء نہ دی جائے اور جب پاکستان میں عدالتیں اور نظام انصاف موجود ہے تو ایسے میں اگر کوئی سنگین جرم کا مرتکب ہویا کسی پر شک ہوتو اس شخص کو سرعام عوامی عدالت لگاکرغیر انسانی تشدد کے بجائے قانون کے حوالے کیا جائے مگر یہاں تو یہ حقیقت بھی دوران تفتیش عیاں ہونا شروع ہوگئی ہے کہ مقتول سری لنکن اپنے فرائض منصبی میں چند نالائق ملازمین کو سہی کام کی تلقین کرتے ہوئے کہا کرتا تھا کہ اپنی روزی کو حلال کرو اور سہی کام کرو۔ایسے ہی افراد نے مذہب کی آڑ میں اس سنگین جرم کا ارتکاب کیا ہے۔

اب جبکہ ہم یورپی یونین اور دیگر فورمز کے علاوہ ایف اے ٹی ایف کے گرداب میں پھنسے ہوئے ہیں اور فنانشل ایکشن ٹاسک فورس کے آئندہ اجلاس میں جس کو بقول مولانا فضل الرحمان سفاکی وبربریت کا عمل قرار دیا گیایہ دلخراش واقعہ ممبران کے ذہنوں کے پردوں پر کوئی بھی فیصلہ کرتے وقت ضرور موجود رہے گا۔

میں نے اپنے فرائض منصبی کے سلسلے میں اقوام متحدہ کی جانب سے دنیا کے مختلف ممالک میں بطور سربراہ خدمات انجام دیں اور کسی بھی ملک میں ایسا نہیں دیکھا کہ جہاں ایک ہجوم یا گروہ مذہب کو بنیاد بناکرقانون کو اپنے ہاتھ میں لیتے ہوئے اس سفاکی سے کسی انسان کی جان لے سکے۔

اس میں کوئی دورائے نہیں کہ پیغمبر اسلام ﷺ کی حرمت کسی بھی مسلمان کیلئے ایمان کا بنیادی جز ہے لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ کسی بھی انسان ہربغیر شواہد کے اس طرح ظلم کرنا خلاف قانون ہے اور دین اسلام بھی اس کی اجازت نہیں دیتا۔پاکستان کے چوٹی کے عالم دین جاوید احمد غامدی اور ڈاکٹر عزیز کاکہنا ہے کہ سری لنکن شہری جیانتھا کمارا کے قتل کے طریقہ کار کی قرآن پاک یا کسی بھی اسلامی واقعہ میں مثال نہیں ملتی۔

اسلام امن کا دین اور پیغمبر اسلام ﷺ رحمۃ للعالمین اور مشعل راہ ہیں اور پاکستان میں ہونیوالے اس المناک واقعہ کے بعد پہلی بار تمام مسالک کے علماء نے اس یک زبان ہوکر مذمتی بیانات جاری کئے ہیں۔

دنیا کے کسی بھی ملک میں کسی بھی انسان کے ساتھ اس طرح کا غیر انسانی سلوک اسلام اور ملکی قوانین کے خلاف سمجھا جاتا ہے ۔ سری لنکا وہ ملک ہے جس نے ڈینگی کے سیزن میں درجنوں  ڈاکٹرز پاکستان بھیج کر پاکستانیوں کو علاج کی سہولت دیکر کئی پاکستانیوں کی زندگیاں بچائیں۔ اس کے علاوہ سری لنکن بہت خوشی اور فخر سےآنکھوں کے عطیات پاکستان کو بھیجتے ہیں تاکہ لوگوں کی بینائی دیکر ان کی زندگیوں میں روشنی بکھیریں لیکن پاکستان میں سری لنکن شہری کے ساتھ چند پاکستانیوں کے سلوک کو بھلانا ان کیلئے ناممکن ہوگا۔

سیالکوٹ کھیلوں کے سامان، آلات جراحی، چمڑے کی مصنوعات کے حوالے سے پوری دنیا میں ایک الگ شہرت اور نمایاں مقام رکھتا ہے جہاں دنیا کے کئی ممالک سے نمائندے آکر سامان کی پڑتال کرتے ہیں تاکہ پیداوار کے معیار کو بہتر بناکر ایکسپورٹ کیا جاسکے تاہم اس واقعہ کے بعد پیشہ ور افراد کاسیالکوٹ آنا مشکل ہوجائیگا اور عندیہ یہی دیا جارہا ہے کہ بڑے بڑے آرڈرز میں کمی آنا شروع ہوجائیگی جس کے ہماری بیمارمعیشت پر سنگین نتائج مرتب ہونگے۔

ستم ظریفی یہ ہے کہ اس ملک میں مذہب کو جس طریقے سے بتدریج سیاست کیلئے استعمال کیا گیا اس کی وجہ سے لوگ اپنے مقاصد کے حصول کیلئے مذہبی جذبات کو ابھارا کرتے ہیں اور جس کے نتائج اس طرح کے کی صورت میں نظر آتے ہیں کہ جب کوئی گروہ کسی ذاتی رنجش یا عداوت کی بناء پر بھی لوگوں کی جانیں لینے سے نہیں چوکتا۔

جہاں تک توہین رسالتﷺ کے کیسز کا تعلق ہے تو عدالتوں میں اکثر کیسز میں ثبوت نہ ہونے کی وجہ سے ملزمان کو ریلیف ملا ہے۔ یہ بھی دیکھنے میں آیا ہے کہ اکثر ذاتی دشمنیوں کی بناء پر لوگوں کے نام چوری، ڈکیتی اور قتل و دیگر سنگین مقدمات میں شامل کردیئے جاتے ہیں تاکہ بدلہ لیا جاسکے جو کہ عدالتوں میں جاکر ثابت کرنا ناممکن ہوتاہے۔

موجودہ حالات کو دیکھتے ہوئے یہ کہنا مشکل ہے کہ مستقبل میں ایسے واقعات کا تدراک کیا جاسکے گا۔ سانحہ سیالکوٹ جیسے واقعات پاکستان کے خارجہ تعلقات میں سنگین دشواریاں پیدا کرسکتے ہیں اور اس ضمن میں پاکستان کو اپنا منفی تاثر کو ختم کرنے میں کافی تگ و دو کی ضرورت پیش آئیگی۔

Related Posts