قیام پاکستان سے آج تک ملک خداداد پاکستان کو لاتعداد مشکلات کا سامنا رہا تاہم ایک مسئلہ جو آج بھی حکومت کی مسلسل بے رخی کی وجہ سے ہنوز حل طلب ہے وہ معیشت ہے، پاکستان میں آنیوالی ہر حکومت معیشت کی بدحالی کا واویلہ تو کرتی ہے لیکن معاشی بہتری کیلئے اقدامات سے گریز کیا جاتا ہے۔
موجودہ حکومت بھی ملک میں معاشی مسائل سے پریشان دکھائی دیتی ہے لیکن معیشت کی بہتری کیلئے عملی اقدامات اٹھانے سے قاصر ہے، پاکستان میں ایسے کئی شعبے ہیں جن کو دانستہ نظر انداز کرکے ملک کی معیشت کو مزید مسائل کی دلدل میں دھکیلا جارہاہے۔
قیام پاکستان سے آج تک اس بات کا اعادہ کیا جاتا ہے کہ زراعت پاکستان کی معیشت کی ریڑھ کی ہڈی ہے، پاکستان زرعی مصنوعات میں خود کفیل ہونے کے ساتھ ساتھ برصغیر میں خوردنی اشیاء برآمد کرکے خطیر زرمبادلہ کماتا تھاصرف خوردنی اشیاء ہی نہیں بلکہ کپڑے کی صنعتوں کیلئے خام کاٹن بھی پاکستان بڑی مقدار میں برآمد کرتا تھالیکن حکومت کی ناقص پالیسیوں کے سبب آج پاکستان گندم اور کئی سبزیاں دیگر ممالک سے درآمد کرتا ہے۔
حکومت کی جانب سے زراعت کے شعبہ کو یکسر انداز کرنے کی کئی وجوہات دکھائی دیتی ہیں، زراعت کی آڑ میں ٹیکس قوانین میں چھوٹ کا فائدہ اٹھاکر کالے دھن کو سفید کرنے کا تاثر بھی عام ہے لیکن شعبہ زراعت کو یکسر نظر انداز کرنے کی وجہ سے آج پاکستان کو زرعی پیداوار میں بڑے پیمانے پر کمی کا سامنا کرنے کی وجہ سے کئی اشیاء دیگر ممالک سے منگوانا پڑتی ہیں جبکہ ہماری برآمدات کا حجم بھی گھٹتا جارہاہے۔
پاکستان میں چینی کے شعبے میں بڑے بڑے سیاستدانوں کی سرمایہ کاری کی وجہ سے ملک میں کاٹن کی پیداوار کم کرکے گنے کی کاشت بڑھانے کا رجحان بڑھ رہا ہے، پاکستان میں بڑے رقبے پر برآمدات کیلئے کاشت کی جانیوالی کاٹن اب قصہ ماضی بن چکی ہے اور کاٹن کی جگہ اب گنے کی فصلیں اپنی بہاردکھارہی ہیں۔
کاٹن کے مقابلے میں گنے کی کاشت نسبتاً مہنگی پڑتی ہے اور گنے کی فصل پر پانی بھی زیادہ خرچ ہوتا ہے لیکن گنے کے نرخ اچھے ملنے کی وجہ سے کاٹن کی کاشت گھٹ رہی ہے اور اس کی جگہ گنا کاشت کیا جارہاہے لیکن اگر گنے کی بجائے کاٹن کی پیداوار کو ترجیح دی جائے تو پاکستان بیرون ممالک برآمدات میں اضافہ کرکے معاشی بدحالی کو کسی حد تک کنٹرول کرسکتا ہے۔
پاکستان میں بیج بھی ایک بڑا مسئلہ ہے، بھارت سے آنیوالا بیج ہماری کاٹن کا معیار گرانے کا سبب بن رہا ہے، ایسا محسوس ہوتا ہے کہ بیج کےمعاملے کو بھی جان بوجھ کر نظر انداز کیا جارہاہے، پاکستان میں بیج کی وجہ سے ہمارے فی ایکڑ پیداوار بھی کم ہوتی جارہی ہے جبکہ خطے کے دیگر ممالک کی نسبت پاکستان میں کاٹن کی پیداوار تقریباًنصف رہ گئی ہے۔
سابق حکومت کی طرح موجودہ حکومت نے بھی زراعت کے شعبے کو ترجیحات میں کبھی شامل نہیں رکھا یہی وجہ ہے کہ اس وقت ٹڈی بھی ایک بڑا مسئلہ بن چکا ہے، حکومت نے ٹڈیوں کے خاتمے کیلئے 2 ارب روپے مختص کئے ہیں جس سے حکومت کی غیر سنجیدگی عیاں ہوتی ہے۔حکومت کی طرف سے باتیں تو بہت کی جاتی ہیں لیکن چیزوں کو بہتربنانے کیلئے کوئی بھی واضح حکمت عملی دکھائی نہیں دیتی۔
پاکستان میں انسانوں پر سرمایہ کاری آج بھی ایک معمہ ہے، پاکستان اس وقت 66 فیصد نوجوانوں پر مشتمل ہے اور حکومت کے پاس ان نوجوانوں کیلئے کوئی پالیسی نہیں ہے، کوئی نہیں جانتا کہ ان نوجوانوں کا معاشی مستقبل کیا ہوگا۔کتنے نوجوانوں کو ڈاکٹر، کتنے انجینئر، کتنے پروفیسراور کس شعبے کے کتنے لوگ درکار ہیں۔
بیرون ممالک جب بھی ویزا کیلئے درخواست دی جاتی ہے تو وہاں ایک پرفارما دیا جاتا ہے جس میں شعبے کا انتخاب بہت اہمیت رکھتا ہے کیونکہ ہر حکومت پہلے یہ طے کرتی ہے کہ کس شعبے میں کتنے لوگوں کی ضرورت ہے اس کے بعد یہ فہرست تیار کی جاتی ہے لیکن صد افسوس کہ پاکستان کی حکومت نے کبھی اس معاملے کی طرف توجہ ہی نہیں دی اور انتہائی افسوس کی بات ہے کہ آج بھی حکومت کو یہ معلوم نہیں ہے کہ ملک میں کس شعبے میں کتنے اور کن کن مہارتوں کے حامل لوگ درکار ہیں حتیٰ کہ حکومت کہ یہ بھی اندازہ نہیں کہ ملک میں کتنے ڈاکٹرز کی ضرورت ہے۔
پاکستان میں ایک بھیڑ چال جاری ہے، ہر شخص جس کو جو سمجھ آتا ہے وہ اسی طرف چل پڑتا ہے، کوئی انجینئرنگ کررہا ہے تو لوگ انجینئرنگ کی طرف بھاگ رہے ہیں اور آج کل پی ایچ ڈی کی دوڑ لگی ہوئی ہے جس کی وجہ سے آئندہ چند سال میں پی ایچ ڈی کی وقعت کم ہوجائیگی۔
حکومت کی طرف سے نوجوانوں کی رہنمائی ہونی چاہیے کہ ہمیں کس کس شعبے میں افرادی قوت کی ضرورت ہے تاکہ نوجوان اس شعبے کی طرف جائیں لیکن حکومت کی طرف سے رہنمائی نہ ملنے کی وجہ سے نوجوان کسی ایک مخصوص شعبے کی طرف رخ کرلیتے ہیں جس کی وجہ سے بیروزگاری کی شرح میں اضافہ ہوتا ہے اور یہی نوجوان مستقبل سے مایوس ہوکر غیر قانونی سرگرمیوں اور بیرون ممالک کی طرف چلے جاتے ہیں۔
پاکستان میں انفارمیشن ٹیکنالوجی کا شعبہ بھی حکومت کی بے اعتناعیوں کا شکار ہے، ایک طرف حکومت ڈیجیٹل پاکستان کی طرف قدم بڑھانے کا عزم رکھتی ہے اور دوسری طرف آئی ٹی انڈسٹری کیلئے کوئی خاطر خواہ حکمت عملی دکھائی نہیں دیتی۔
اپنے سافٹ ویئرعالمی سطح پر فروخت کرنیوالوں کو اپنا سرمایہ ملک میں لانے کیلئے بیشمار مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔پاکستانی آئی ٹی ماہرین دیگر ممالک کے مقابلے میں بہتر کارکردگی کے باوجود حکومت کی طرف سے نظر انداز کرنے کی وجہ سے اپنا حقیقی کردار ادا کرنے سے قاصر ہے۔
آج دنیا ڈیجیٹل دور کی طرف جارہی ہے اور آئی ٹی کے ماہرین کی طلب میں بھی اضافہ ہورہا ہے ، ایسے میں ہمیں آئی ٹی کے شعبے میں اصلاحات کرکے آئی ٹی ماہرین کو مراعات دیکر اس شعبے میں مزید پروفیشنلز پیدا کرنے چاہئیں لیکن بدقسمتی سے یہ شعبہ بھی حکومت کی توجہ کا متقاضی ہونے کے باوجود بے اعتناعی کا شکار ہے۔
پاکستان میں ہر پیداوار شعبے میں کارٹلز بنے ہوئے ہیں جو اشیاء کی قیمت کا خود تعین کرتے ہیں، حکومت کی طرف سے مسابقت کا رجحان نہ ہونے کی وجہ سے یہ کارٹلز خود اپنے فیصلے کرنے میں آزاد ہیں اگر حکومت مقابلے کا رجحان بڑھانے کیلئے پیداوار شعبے کی حوصلہ افزائی کرکے مزید مواقع پیدا کرے تو کارٹلز کی من مانیوں سے نجات مل سکتی ہے۔
پاکستان میں شرح سود آج بھی خطے میں بہت زیادہ ہونے کی وجہ سے لاگت بڑھنے کے سبب ہمارے پیداواری شعبے کو بین الاقوامی سطح پر مقابلے میں دشواری ہوتی ہے اورعالمی مارکیٹ میں اپنی مصنوعات کو فروخت کرنے میں مشکلات پیدا آتی ہیں جس کی وجہ سے ہماری برآمدات متاثر ہوتی ہیں۔
پاکستان کو ترقی کی راہ پر گامزن ہونے اور اپنی معیشت کو مستحکم بنانے کیلئے زراعت، انسانی وسائل اور آئی ٹی کے شعبے پر توجہ دینا ہوگی اور شرح سود کو کم سے کم سطح پر لانا ہوگا بصورت دیگرمعاشی ابتری ہی ہمارا مقدرہوگی۔