گزشتہ کچھ سالوں سے پاکستان کی معاشی حالت مسلسل ابتری کا شکار ہے جس میں بہتری کے آثار وقت کے ساتھ ساتھ بڑھنے کی بجائے کم ہورہے ہیں۔
مثال کے طور پر ملک پر قرضوں کا بوجھ ہر گزرتے دن کے ساتھ بڑھ رہا ہے۔ کورونا کے بعد بد ترین سیلاب اور پھر آئی ایم ایف سے ڈیل میں تعطل کے باعث ملک میں جو معاشی بحران آیا ہے، گزشتہ کئی عشروں میں اس کی مثال عدم دستیاب ہے۔
ملک کا بیرونی قرض خطرناک حد تک پہنچ گیا۔ بلومبرگ کا کہنا ہے کہ جون 2023ء کے آخر تک پاکستان کو مزید 3ارب ڈالر سے زائد رقم ادا کرنا ہوگی۔یہ اتنی بڑی ادائیگی ہوگی کہ ملکی معیشت مزید تباہی کی جانب گامزن ہوسکتی ہے۔
دوسری جانب عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) سے قرض کے حصول میں بھی وزیر اعظم شہباز شریف کی معاشی ٹیم جس کی قیادت وزیرِ خزانہ اسحاق ڈار کر رہے ہیں، جدوجہد کر رہی ہے۔ دوست ممالک کی حمایت بھی کام نہ آسکی۔
سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات (یو اے ای) کی حمایت کے باوصف پاکستان بیرونی قرضوں کی ادائیگی کیلئے درکار رقم حاصل نہیں کرسکا۔ماہرینِ معاشیات کا کہنا ہے کہ ملکی جی ڈی پی کی نمو بھی معاشی چیلنجز کے باعث متاثر ہوئی ہے۔
حالیہ اعدادوشمار سے ظاہر ہے کہ رواں برس پاکستان کی جی ڈی پی کی شرحِ نمو 2023 میں 0.6 فیصد رہے گی جبکہ خطے کے دیگر ممالک کے مقابلے میں یہ شرحِ نمو انتہائی کم ہے۔
اشیائے ضروریہ، بالخصوص کھانے پینے کی چیزوں پر مہنگائی کا جو طوفان آیا ہے، اس میں تو ملکی معاشی بدحالی نے جنوبی ایشیا کے دیوالیہ ملک سری لنکا کو بھی پیچھے چھوڑ دیا ہے۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ پاکستان اپنا ٹیکس محصولات کا نظام بہتر بنائے اور ٹیکس جی ڈی پی تناسب بہتر کرے۔ ہمیں ٹیکس اصلاحات متعارف کرانے کی جتنی ضرورت آج ہے، پہلے شاید کبھی نہیں تھی، تاہم حکومت کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگی۔
ٹیکس محصولات میں اضافے سے ملکی آمدنی میں اضافہ اور بیرونی قرض کم کرنے میں مدد ملے گی جبکہ دوسرا مرحلہ برآمدات کو فروغ دینا ہے۔ ملک میں برآمدات کی بڑی صلاحیت موجود ہے تاہم اس سے پوری طرح فائدہ نہیں اٹھایا جاتا۔
حکومت کو برآمدات کے فروغ کیلئے اقدامات اٹھانے اور برآمدات میں رکاوٹ بننے والے عوامل کو دور کرنے کی ضرورت ہے۔ اس سے بیرونی قرض پر انحصار کم ہوسکے گا جبکہ تیسرا مرحلہ غیر ملکی سرمایہ کاروں کو پاکستان کی طرف راغب کرنا ہے۔
ہمارے ہاں غیر ملکی سرمایہ کاری کیلئے بھی بہت زیادہ مواقع موجود ہیں تاہم ان سے بھرپور استفادہ نہیں کیا جاتا۔ حکومت کو سرمایہ کاروں کیلئے سازگار ماحول تشکیل دینا ہوگا۔
اس سے ملازمتیں پیدا کرنے، اقتصادی ترقی کو فروغ دینے اور بیرونی قرضوں پر ملک کا انحصار کم کرنے میں مدد ملے گی۔ ہماری معاشی حالت ابتر ہے، اور اس پر فوری توجہ کی ضرورت ہے۔ یہ اقدامات بیرونی قرضوں پر ملک کے انحصار کو کم کرنے، اقتصادی ترقی کو بڑھانے اور اپنے لوگوں کے لیے بہتر مستقبل کی تعمیر میں مدد دیں گے۔