عالمی مالیاتی ادارے (آئی ایم ایف) نے غیر معمولی طور پر بہت زیادہ ‘معاشی خطرات’ سے خبردار کیا ہے اور پاکستان کے لیے سخت شرائط عائد کر دی ہیں۔ پاکستان نے 3 بلین ڈالر کے اسٹینڈ بائی معاہدے کے حصے کے طور پر 10 اہم شرائط کو قبول کیا ہے۔
آئی ایم ایف نے پاکستانی حکام سے کہا ہے کہ وہ مانیٹری پالیسی کو مزید سخت کریں اور دیگر اقتصادی اصلاحات کے علاوہ کرنسی کے تبادلے میں مداخلت بند کریں جس میں بجلی کے نرخوں میں اضافہ بھی شامل ہے۔آئی ایم ایف نے اسٹیٹ بینک کو مہنگائی کے دباؤ کا جواب دینے میں ناکامی پر بھی آڑے ہاتھوں لیا ہے۔ ملک بالآخر گزشتہ 50 سالوں میں مہنگائی کی بلند ترین شرح پر پہنچ چکا ہے۔
آخر کار، مرکزی بینک کو پالیسی ریٹ کو 22 فیصد تک بڑھانا پڑا۔ مالی سال 2025 تک مہنگائی کی شرح 25 فیصد رہے گی اور آئی ایم ایف نے کہا ہے کہ حکومت مہنگائی کو 5 سے 7 فیصد کی سطح تک کم کرنے میں سنجیدہ نہیں ہے۔حکومت نے جولائی کے اختتام سے پہلے بجلی کی قیمتوں میں اضافہ کرنے کا بھی عہد کیا اور یہ کہ وہ اب کوئی ٹیکس معافی یا رعایت نہیں دے گی۔
سبکدوش ہونے والی حکومت بجلی کی طویل بندش کے علاوہ مہنگائی کے بوجھ تلے دبے صارفین کو بجلی کی قیمتوں میں مزید اضافے کا تحفہ دے گی۔آئی ایم ایف نے درآمدی پابندیوں پر بھی تنقید کی ہے جس کی وجہ سے کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ (سی اے ڈی) کم ہوا ہے لیکن معاشی سرگرمیاں رک گئی ہیں۔ درآمدی پابندی نے نقدی کی آمد بالخصوص ترسیلات زر کو بھی روک دیا ہے۔ حکومت پچھلے چار مہینوں سے سرپلس ہونے پر اپنی تعریف کر رہی ہے اور یہ سمجھے بغیر کہ معیشت مشکلات سے باہر نہیں نکلی ہے۔
آئی ایم ایف کی ناراضگی کے باعث پاکستان نے بھی کرنسی مارکیٹ سخت کر دی ہے۔ انٹربینک اور اوپن مارکیٹ ریٹ میں بھی بڑا فرق ہے۔ آئی ایم ایف نے کہا کہ فرق 1.25 فیصد سے زیادہ نہیں ہونا چاہیے، جو موجودہ شرح پر 4 روپے کے لگ بھگ ہے۔ اگر منی ایکسچینج ڈیلر غیر ملکی کرنسی کی کمی کو پورا کریں گے تو یہ بہترین کام ہوگا۔
حالیہ فنڈز کے باوجود پاکستانی کرنسی میں خاطر خواہ اضافہ نہیں ہوا۔ملک کو آئی ایم ایف اور دوست ممالک سے فنڈز ملے جب کہ چینی بینکوں نے بھی قرض دیا ہے، انہوں نے معاشی صورتحال کو بہتر کرنے میں بہت کم کام کیا ہے۔ اس سال اقتصادی شرح نمو 2.5 فیصد تک پہنچ جائے گی۔
آئی ایم ایف نے کہا کہ پاکستان کے معاشی چیلنجز پیچیدہ اور طویل مدتی ہیں اور خطرات غیر معمولی حد تک زیادہ ہیں۔ حکومت کے سسٹم سے باہر جانے کے بعد، یہ اگلے سیٹ اپ کی ذمہ داری ہوگی کہ وہ معاشی صورتحال کو کس طرح سنبھالتی ہے۔