اپوزیشن کی جانب سے ابھی بھی فیصلہ کن ہونے اور اسمبلیوں سے استعفیٰ پیش کرنے میں تاخیر کے باعث حکومت نے قبل ازوقت سینیٹ انتخابات کے انعقاد پر غور کرتے ہوئے انتخابات کو شو آف ہنڈ کے ذریعے کرانے کے لئے سپریم کورٹ سے رجوع کرنیکا فیصلہ کیا ہے جس سے اپوزیشن کو سینیٹ الیکشن کیلئےکم وقت ملے گا اور حکومت شفافیت کو یقینی بنانے کے لئے شو آف ہینڈ سے انتخابات کرانے جیسی اصلاحات کو بھی منظور کرائے گی۔
104 نشستوں کے ایوان بالا کی 52 نشستوں کے لئے انتخابات ہونے والے ہیں تاہم وفاقی وزیر فواد چوہدری کا کہنا ہے کہ سینیٹ انتخابات کسی ترمیم بغیر بھی قبل ازوقت ہوسکتے ہیں۔ اگر اس تجویز پر عمل کیا جاتا ہے تو حزب اختلاف کیلئے بھی سینیٹ انتخابات کے لئے مربوط حکمت عملی بنانے کرنے کے لئے درست وقت ہوگا۔
سینیٹ انتخابات میں خفیہ رائے شماری کے لئے تنازعہ کھڑا ہوا جس کے نتیجے میں ووٹوں کی تجارت ہوتی ہے کیونکہ پارٹیاں نشستوں کے لئے لڑتی ہیں اورحکومت انتخابات میں اثر انداز ہونے والی بدانتظامیوں کا خاتمہ کرنا چاہتی ہے اور شفافیت کو یقینی بنانے کے لئے رائے شماری سے قبل ووٹ کاکھلا مظاہرہ کرنا چاہتی ہے۔ یہ دیکھنا ہوگا کہ کیا وزیراعظم عمران خان کی حکومت کو اقتدار سے ہٹانے کے لئے بھر پور مہم چلانے والی حزب اختلاف ان اصلاحات کو قبول کرے گی یا نہیں۔
اپوزیشن نے 31 دسمبر تک استعفے پیش کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اپوزیشن ارکان قومی اسمبلی کے اسپیکر کی بجائے پارٹی کے سربراہوں کے پاس استعفے جمع کروارہے ہیں۔ یہاں تک کہ اگر استعفے ان تک پہنچ جاتے ہیں تو اسپیکر کی صوابدید پر ہے کہ وہ اسے قبول کریں یا نہ کریں۔ یہ طویل عرصے تک استعمال کرنے والا حربہ ہے کیونکہ ہر قانون ساز کو اپنے استعفے کی تصدیق کے لئے انفرادی طور پر طلب کیا جاتا ہے۔ حزب اختلاف کو اس کا احساس ہے اور وہ استعفے پیش کرنے میں تاخیر کا حربہ استعمال کررہے ہیں۔
پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ وہ سندھ حکومت کی قربانی دینے کے لئے تیار ہیں اگر اس سے عمران خان کی حکومت ختم کرنے میں مدد مل سکتی ہے لیکن اس کا فیصلہ مشترکہ اپوزیشن پر چھوڑ دیا گیاہے۔ پی ڈی ایم نے اپنا آخری سیاسی اجتماع لاہور میں کیا ہے لیکن پیپلز پارٹی نے بے نظیر بھٹو کی برسی کی یاد مناتے ہوئے دوبارہ اجتماع کا فیصلہ کیا ہے۔ اپوزیشن نے اس بارے میں کوئی مربوط حکمت عملی نہیں تیار کی ہے کہ اس کا مقصد حکومت کا تختہ الٹنے یا سینیٹ انتخابات روکنا ہے تاہم اپوزیشن تحریک انصاف کے خلاف بیان بازی جاری رکھے ہوئے ہے۔
انکار کے باوجود پی ڈی ایم حکومتی مذاکرات کی پیش کش کو قبول کرنے پر غور کررہی ہے لیکن کسی بھی مذاکرات سے قبل قربانی کا بکرا تلاش کیا جارہاہے لیکن یہ بات یقینی ہے کہ سینیٹ کے انتخابات بغیر کسی رکاوٹ کے ہوں گے اور حزب اختلاف بھی اس کا حصہ ہوگی اور اس وقت ایسالگتا ہے کہ اپوزیشن تقسیم ہورہی ہے اور عمران خان پہلے سے زیادہ مضبوط دکھائی دیتے ہیں۔