ڈاکٹر قدیر خان،ایک عہد ناتمام

مقبول خبریں

کالمز

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

فخر پاکستان، محسن پاکستان اور رشک پاکستان ، وہ شخص جس میں پاکستانیت کوٹ کوٹ کر بھری تھی، جس نے دشمنوں کے مذموم ارادوں کو خاک میں ملادیا۔وہ شخص جو بقائے پاکستان کا علمبرداراور انسانیت کی ترغیب دینے والا اور انسانیت کی خدمت سے سرشار تھا، انہوں نے مزدوروں کے ساتھ ملکر ایسے حصے، پرزے جن کے حصول کاپابندیوں کی زنجیروں میں جکڑ کردنیا نے ہماراراستہ بند کردیا تھا، بنائے۔

ہمارا ایٹمی قوت بننے کا خواب شائد کبھی شرمندہ تعبیر نہ ہوتا لیکن یہ ڈاکٹر عبدالقدیر خان کے عزم و ولولے کا صلہ تھا جس کی وجہ سے آج اللہ کے فضل و کرم سے پاکستان کا دفاع ناقابل تسخیر ہوچکا ہے اور دشمن ہماری طرف نظر اٹھاکر دیکھنے کی ہمت بھی نہیں کرسکتا۔ آج نہ صرف پوری قوم بلکہ عالم اسلام بھی خاص طو رپرڈاکٹر عبدالقدیر خان کے اس لئے مشکور ہیں کہ دنیا کے نامور سائنسدان نے پاکستان کو جوہری قوت بنایا جسے آج مسلم امہ کا قلعہ سمجھا جاتا ہے۔

ایسا شخص کہ پابندیاں لگنے کے بعد گوجرانوالہ اور کراچی کی فیکٹریوں میں مزدوروں کے ساتھ بیٹھ کرکام کرواتے تھے تاکہ مطلوبہ حصے پرزے مقامی طور پر بنائے جاسکیں۔ ایسے شفیق اورمنکسرالمزاج کہ روزانہ اپنے تمام ڈائریکٹرز کے ساتھ دوپہر کا کھانا ضرور تناول فرماتے تھے ۔ناچیز ان خوش بخت افراد میں سے ایک ہے جسے ڈاکٹر عبدالقدیر خان کے ساتھ متواتر2سال اور8 مہینے کام کرنے کا اعزاز حاصل رہا ۔

ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی ذات پر بولنے کیلئے ایک نشست ناکافی ہے ، ان کی یادداشت قابل رشک تھی۔ میں پاک فوج میں کپتان تھا اور میرا تبادلہ کراچی میں ایسے مقام پر ہوا جہاں تمام اشیاء کی رسد پرمیرے دستخط ثبت ہوتے تھے۔مجھے علم نہیں تھا کہ ڈاکٹر عبدالقدیر خان کون ہیں لیکن انہیں معلوم تھا کہ دستخط کرکے سمندری راستوں سے اشیاء بھیجنے والا یہ معاونت کار کپتان کون ہے۔

جب بھارت نے پاکستان کو میلی نظر سے دیکھتے ہوئے ایٹمی دھماکہ کیا توہالینڈ میں عیش وعشرت اور شہزادوں جیسی زندگی گزارنے والے ڈاکٹر عبدالقدیر خان کے دل میں دھماکہ ہوا اور انہوں نے حکومت پاکستان کو مکتوب لکھ کربتایا کہ میں وہ شخص ہوں جوپاکستان آکر آپ کو یہ ڈیوائس اور یہ طاقت فراہم کرسکتا ہوں اور اس کے بعد پاکستان ہی نہیں بلکہ پوری دنیا نے دیکھا کہ ایسا ذہین انسان کہ ایک وقت میں متفرق کام کیا کرتا تھاحتیٰ کہ ایک بار میں نے مشاہدہ کیا کہ دوران میٹنگ ایک ہاتھ سے سفید کاغذ پر کچھ لکھنا شروع کیا اور اسٹاف افسر کو بلاکر تاکید کی کہ اس کاغذ کو لفافہ میں ڈال کر صدر مملکت کو پہنچایا جائے جس کا مقصد یہ ہوا کرتا تھا کہ ایسی رکاوٹیں فوری دور ہوں جو کسی تعطل کا سبب بنیں ۔

اس مٹی کی خاطر ڈاکٹر عبدالقدیر خان جیسے مایہ ناز سائنسدان نے گرانقدر قربانیاں دیں، بقول افتخار عارف کہ:

مٹی کی محبت میں ہم آشفتہ سروں نے
وہ قرض اتارے ہیں کہ واجب بھی نہیں تھے

ڈاکٹر عبدالقدیر خان کو تاریخ اور انسانیت ہمیشہ یاد رکھے گی اور جب تک پاکستان دنیا کے نقشے پرقائم ودائم ہےڈاکٹر عبدالقدیر خان کا نام سنہری حروف سے لکھا جائیگا۔ گوکہ کچھ حالات و واقعات اورمصلحت کی بناء پر ایسے محرکات پیدا ہوگئے جو ہمارے دلوں پر کچھ نشان چھوڑ گئے۔
جب پاکستان نے ایٹمی دھماکے کئے تو ہم آفس میں بیٹھ کر صورتحال کی نگرانی کررہے تھے ، پوری دنیا سے فون آرہے تھے، دنیا سے کئی پاکستانی ڈاکٹر قدیر خان کو سونے میں تولنے کیلئے تیار تھے اور لوگوں کا ڈاکٹر قدیر خان پر بھروسہ ایسا تھا کہ منہ مانگی رقوم دینے کی پیشکش ہورہی تھی۔
بعد میں ملکی، علاقائی اور بین الاقوامی مصلحتیں آئیں تاہم ڈاکٹر قدیر خان کا یہی کہنا تھا کہ میں نے جو خدمات انجام دینا تھیں وہ دے چکا اوراب اگر ضرورت ہے تو قربانی دینے سے بھی دریغ نہیں کرونگااور ان سے یہ قربانی لے بھی لی گئی۔جس کا یقیناً ہمیں ملال ہے۔

اس بصیرت افروز شخصیت کو ملکی و بین الاقوامی صورتحال کا مکمل ادراک تھا جس کے سبب وہ ملک کیلئے خوشی خوشی قربان ہوگئے۔

تھی مسئلے سے بڑھ کے جسے مصلحت پسند
وہ لوگ جان بوجھ  کے انجان ہوگئے
لیکن وطن کی سرحدیں گل رنگ ہیں گواہ
جو لوگ پر خلوص تھے قربان ہو گئے

Related Posts