گھریلو تشدد کا بل

مقبول خبریں

کالمز

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

پاکستان پانچ سالوں سے گھریلو تشدد سے متعلق ایک بل کو نافذ کرنے میں ناکام رہا ہے۔گھریلو تشدد بل 2020 کو رواں سال اپریل میں قومی اسمبلی نے منظور کیا تھا لیکن سینیٹ نے بل میں ترمیم کے مطالبے کے بعد اسے نظرثانی کے لئے کونسل آف اسلامک آئیڈیالوجی (سی سی آئی) کو بھیجا گیا ، مذہبی ادارہ اب پارلیمنٹ سے الگ ہوکر قانون سازی کے بارے میں اپنا فیصلہ جاری کرے گا۔

اس بل کا مقصد خواتین ، بچوں ، بوڑھوں اور دیگر کمزور گروہوں کو گھریلو تشدد سے محفوظ رکھنا ہے۔ یہ ان تمام افراد کو امداد اور بحالی کی پیش کش ہے جو گھریلو تشدد کا شکار ہیں۔

اس مسودے میں متعدد ترامیم کے بعد بالآخر بل منظور کرلیا گیا لیکن ایک بارپھر یہ اعتراض اٹھایا گیا ہے کہ یہ اسلامی احکامات کے منافی ہے اور اس پر نظر ثانی کی جانی چاہئے۔اس بل نے متعدد مذہبی سخت گیراور قدامت پسند طبقات کو مشتعل کردیا ہے،اس بل میں گھریلو تشدد کے مرتکب افراد کے خلاف سخت سزا کی تجویز پیش کی گئی ہے لیکن اس بل نے ملک میں تفریق رائے کو بھی بے نقاب کردیا ہے۔

2016 میں پنجاب نے تاریخ میں پہلی بار خواتین پر تشدد کے بارے میں ایک بل منظور کیا تھا لیکن اس بل پر بھی اعتراضات کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ اس بل کو سی سی آئی کے پاس بھجوایا گیا تھا جس نے ایک حکم نامہ جاری کیا تھا جس میں اپنی بیویوں پر معمولی تشدد کی اجازت دی گئی تھی۔

سی سی آئی نے عصمت دری اور جنسی زیادتی کے واقعات کی تحقیقات کے لئے ڈی این اے کے استعمال کی مخالفت کی ہے اور شادی کے لئے عمر کی حد مقرر کرنے کی ترغیب دینے سے پرہیز کیا ہے۔

خیبرپختونخوا اور پنجاب میں متعدد بل منظور ہوچکے ہیں اور سندھ میں بچوں سے شادی کا ایکٹ نافذ کیا گیا ہے لیکن اس پر عمل مشکل سے کیا جاتا ہے۔

پاکستان جیسے معاشرے میں گھریلو تشدد کے قوانین وقت کی ضرورت ہیں۔ ہمیں خواتین اور دیگر کمزور طبقات کے خلاف جنسی ، جسمانی اور ذہنی استحصال کے واقعات کو روکنے کیلئے اقدامات کرنے کی ضرورت ہے، اس لئے یہ ضروری ہے کہ گھریلو تشدد کے خاتمے کیلئے موثر قانون سازی کی جائے۔

Related Posts