ڈالر بے قابو، معیشت بے قابو

مقبول خبریں

کالمز

Ceasefire or a Smokescreen? The US-Iran Next Dialogue of Disillusions
جنگ بندی یا دھوکہ؟ امریکا اور ایران کے درمیان فریب پر مبنی اگلا مکالمہ
Israel-Iran War and Supply Chain of World Economy
اسرائیل ایران جنگ اور عالمی معیشت کی سپلائی چین
zia-2-1-3
بارہ روزہ جنگ: ایران اور اسرائیل کے نقصانات کا جائزہ

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

معیشت کی بحالی پچھلے تقریباً ڈیڑھ عشرے کے عرصے سے ہر حکومت کا سب سے بڑا چیلنج چلی آ رہی ہے، تاہم اس عرصے کے دوران میاں نواز شریف کے دور حکومت کے استثنا کے ساتھ ہر جاتی حکومت نے اپنی ناکام پالیسیوں، خراب کارکردگی اور مایوس کن کارگزاری کے ذریعے پیشرو حکومت کو ہی بہتر ثابت کیا ہے۔

گویا اس باب میں صورتحال وہی عرب حکایت کے مطابق کفن چور کے بیٹے کی سی ہے، کہتے ہیں کسی علاقے میں ایک کفن چور رہتا تھا، علاقے میں جیسے ہی کوئی شخص مر جاتا اور اسے سپرد خاک کر دیا جاتا، دوسرے تیسرے دن کفن چور اس کی قبر کھود کر میت کا کفن چرا لیتا۔ لوگ اس صورتحال سے بہت تنگ آگئے۔ کچھ عرصے بعد کفن چور مر گیا تو اس کے بیٹے نے باپ کا ”پیشہ“ اپنا لیا، تاہم اس نے اس کام میں کچھ ایسی جدت پیدا کی کہ لوگ چیخ اٹھے۔

کفن چور کے بیٹے کی ”جدت“ یہ تھی کہ بیٹا نہ صرف قبر کھود کر میت کا کفن چوری کرتا، بلکہ کفن چرانے کے ساتھ میت کی بے حرمتی کا ارتکاب بھی کرتا۔ علاقے کے لوگوں نے یہ حالات دیکھے تو اس امر پر پہلے والے کفن چور (باپ) کو دعائیں دینے لگے کہ وہ کم از کم ان کی میتوں کے ساتھ بدسلوکی تو نہیں کرتا تھا۔

پاکستان کی معیشت کے ساتھ بھی عرصے سے یہی تجربہ جاری ہے، ہر حکومت معیشت کی بحالی کا پرچم اٹھاکر ملک کا انتظام سنبھال لیتی ہے، تاہم کچھ عرصے بعد حکومت کی پالیسیوں سے معیشت بحال ہونے کے بجائے مزید بے حال اور مزید ابتری کی دلدل میں دھنسنے لگتی ہے اور لوگوں کی زندگی کا قافیہ پہلے سے زیادہ تنگ ہوجاتا ہے، چنانچہ لوگ پچھلی حکومت کو یاد کرکے آہیں بھرتے ہیں کہ اس دور میں صورتحال ایسی نہ تھی۔
2018ءمیں بڑے اہتمام کے ساتھ پی ٹی آئی اور عمران خان کو بر سر اقتدار لایا گیا، دعوے یہ کیے گئے تھے کہ کرپشن کا خاتمہ کر دیا جائے گا، بیرون ملک موجود قوم کی لوٹی گئی اربوں کھربوں کی رقم واپس لائی جائے گی، معیشت بحال کردی جائے گی اور ملک کو خوشحالی اور ترقی کے ٹریک پر گامزن کر دیا جائے گا، تاہم پی ٹی آئی نے ان دلکش اور بلند بانگ دعووں کی گونج میں حکومت کا نظم و نسق سنبھالا تو کچھ ہی عرصے میں اس کی ناکام معاشی پالیسیوں کا نتیجہ معیشت کی پہلے سے زیادہ زبوں حالی کی صورت میں برآمد ہونے لگا۔ رفتہ رفتہ معیشت کی بحالی میں یہی ناکامی پی ٹی آئی حکومت کے گلے پڑ گئی اور انجام کار پی ٹی آئی کی حکومت کا خاتمہ ہوا۔

پی ٹی آئی کی جگہ ن لیگ کی سربراہی میں پی ڈی ایم پلس کے اتحاد کو اس امید پر حکومت سونپ دی گئی کہ وہ پی ٹی آئی دور میں معیشت کو پہنچے نقصان کا ازالہ کرے گا، تاہم اس حکومت نے معیشت بحالی کے نام پر عوام کی وہ چیخیں نکلوائیں کہ لوگوں کو ”نباش الاول“ (پہلے والے کفن چور) ہی بہتر محسوس ہونے لگا اور لوگ پی ٹی آئی دور کو یاد کرنے لگے۔

پی ڈی ایم پلس کی حکومت اپنی انتہا کو پہنچی تو معیشت مزید تباہ اور عوام کا بری طرح دیوالیہ نکل چکا تھا، تاہم نگران حکومت کے اس جاری عبوری دور میں بلا شبہ مقتدر اداروں کے بعض سخت انتظامی اقدامات کے نتیجے میں معیشت کافی حد تک سنبھلتی نظر آ رہی ہے اور عرصے بعد ایسا لگ رہا ہے کہ گزری حکومت کے مقابلے میں موجودہ حکومت بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کر رہی ہے۔

وزیر خزانہ شمشاد اختر نے گزشتہ دن کراچی میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے گو یہ کہا ہے کہ نگران حکومت گھبرائی ہوئی نہیں ہے، تاہم کچھ عرصہ پہلے جب ڈالر کی اڑان قابو میں نہیں آرہی تھی، وزیر خزانہ میڈم شمشاد بے قابو معاشی حالات دیکھ کر واضح طور پر گھبرا گئی تھیں اور اپنی گھبراہٹ اور پریشانی کااظہار کھلے بندوں کر دیا تھا، آج وہ جب یہ کہہ رہی ہیں کہ عبوری حکومت گھبرائی ہوئی نہیں ہے، تو بلا شبہ حکومتی کارکردگی اس کی تصدیق بھی کر رہی ہے۔
اداروں نے ڈالر کے پر کترنے کیلئے جو انتظامات کیے، ان کا نتیجہ نہ صرف ڈالر کی قدر میں واضح کمی کی صورت میں نکلا بلکہ آہستہ آہستہ اس کے اثرات و ثمرات معیشت کے مختلف شعبوں میں بھی دکھائی دینے لگے، پٹرول کی قیمت میں کمی آگئی، اشیائے ضرورت کے نرخوں پر بھی ڈالر کی قدر میں کمی کا اثر نظر آنے لگا، نیز ڈالر ریٹ کم ہونے کے نتیجے میں ملکی قرضوں کے حجم میں بھی واضح کمی آگئی، جو خوش آئند صورتحال ہے۔ اس سے مجموعی طور پر یہ امید پیدا ہوگئی کہ معیشت کو سنبھالنا ناممکن نہیں ہے اور ڈالر کو قابو کرنے کے اقدامات پر سختی سے عمل در آمد کا سلسلہ جاری رکھا گیا تو معیشت جلد ٹریک پر آجائے گی۔

تاہم اب کچھ دنوں سے ایسا لگ رہا ہے کہ اقدامات کے تسلسل میں کوتاہی برتی جا رہی ہے اور انتظامات کچھ ڈھیلے پڑ گئے ہیں، کیونکہ ڈالر نے ایک بار پھر پرواز شروع کر دی ہے، ضرورت اس امر کی ہے کہ ڈالر کی رفتار کو قابو میں رکھنے کیلئے شروع کیے گئے اقدامات میں مزید تیزی اور سختی لائی جائے ورنہ معیشت کی بحالی خواب بن کر رہ جائے گی اور بہت جلد ایک بار پھر حالات میڈم شمشاد کے گھبرانے کے دن آجائیں گے۔ یہ بات واضح ہوچکی ہے کہ پاکستان کے نیم مردہ معیشت کے طوطے کی جان ڈالر میں ہے، اسے قابو نہ کیا گیا تو اندر ہی اندر یہ معیشت کے طوطے کا گلا گھونٹ ڈالے گا۔

Related Posts