آج سے کروڑوں سال قبل روئے زمین پر پائے جانے والے ڈائنو سارز کی خوراک میں گوشت اور سبزیاں دونوں شامل تھے، تاہم ڈائنوسارز کے متعلق ماضی کا ایک مفروضہ بے بنیاد ثابت ہوا ہے۔
مفروضہ یہ تھا کہ ڈائنوسارز ممالیہ جانوروں کو غالباً نہیں کھایا کرتے تھے، یہاں یہ بیان کرنا ضروری ہے کہ ممالیہ جانوروں سے مراد چوپائے اور دودھ دینے والے جانور ہیں جو انڈے نہیں دیتے، بلکہ بچے پیدا کرتے ہیں، ان میں گائے، بھینس، بکری اور انسان بھی شامل ہیں۔
صارفین کی سہولت کیلئے واٹس ایپ کا نیا فیچر متعارف
نئی تحقیق سے پتہ چلتا ہے کہ ڈائنوسارز کی خوراک گزشتہ مفروضے کے مقابلے میں کہیں زیادہ متنوع تھی۔ سائنسدانوں کی ایک ٹیم نے ایک قسم کے ڈائنو سار مائیکرو ریپٹر پر تحقیق کی جس سے نئے انکشافات سامنے آئے۔ پتہ چلا کہ ڈائنوسارز ممالیہ کو بھی کھاجاتے تھے۔
کیا ڈائنوسارز انسانوں کو بھی کھا جاتے تھے؟ اس سوال کا جواب نفی میں اس لیے ہے کیونکہ سائنسدانوں کا ماننا ہے کہ جب ڈائنو سارزکا دور تھا، اس دور میں انسان پیدا نہیں ہوا۔ سب سے پہلے ڈائنو سارز نے زمین پر 23 کروڑ سال پہلے جنم لیا جبکہ انسان بہت بعد میں آئے۔
محققین کا کہنا ہے کہ انسان سے ملتی جلتی ایک مخلوق نے 26 لاکھ سال قبل زمین پر رہنا شروع کیا اور اگر انہیں انسان بھی قرار دیا جائے تو ڈائنوسار اس دور سے کروڑوں سال قبل صفحۂ ہستی سے مٹ چکے تھے جبکہ ڈائنوسارز کی خوراک پر تحقیق انتہائی مشکل ہے۔
تحقیق مشکل اس لیے ہے کیونکہ ڈائنوسارز کی آنتوں کا مواد محفوظ رہنا تکنیکی اعتبار سے بے حد مشکل ہے۔ موجودہ مطالعے کے اہم محقق کورون سلیوان کا کہنا ہے کہ گزشتہ نمونوں میں ڈائنوسار کی پسلی کے پنجرے کے اندر سے فقاریہ جانوروں کی باقیات ملی تھیں۔
کورون سلیوان نے کہا کہ ہمارے پاس وہ پہلا نمونہ ہے جس میں ممالیہ جانوروں کی باقیات دستیاب ہوئیں جس کے ساتھ مچھلی، پرندے اور چھپکلی کی آنتوں کا مواد بھی ملا جس سے پتہ چلتا ہے کہ چھوٹے سائز کے ڈائنوسار بہت سی متنوع چیزیں کھایا کرتے تھے۔