کیا جامعہ ہری پور کے VC نے ہلال امتیاز جعل سازی سے حاصل کیا؟

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

کیا جامعہ ہری پور کے VC نے ہلال امتیاز جعل سازی سے حاصل کیا؟
کیا جامعہ ہری پور کے VC نے ہلال امتیاز جعل سازی سے حاصل کیا؟

کراچی:جامعہ ہری پور کے وائس چانسلر ڈاکٹر انوار الحسن گیلانی نے مبینہ طور پر جعل سازی سے پاکستان سول ایواڈ 2020 (ہلال امتیاز)جعل سازی سے حاصل کیا ہے، حکومت پاکستان کے ساتھ مبینہ طور پر جعل سازی کر کے ہلال امتیاز لینے کیخلاف شہری کی درخواست پر ایف آئی اے نے انکوائری شروع کر کے کارروائی کے بجائے فائل دبا دی ہے، جامعہ کے اساتذہ اور درخواست گزار نے ڈائریکٹر جنرل ایف آئی اے اور وزیر داخلہ سے مبینہ جعل سازی کو دبانے والے افسران کیخلاف بھی کارروائی کا مطالبہ کیا ہے۔

دستیاب ہونے والی دستاویزات کے مطابق جامعہ ہری پور کے وائس چانسلر ڈاکٹر انوار الحسن گیلانی کو حکومت پاکستان نے دو بار سول ایوارڈز جاری کئے ہیں، جن میں ایک نشان امتیاز اور دوسرا ہلال امتیاز ہے 14 اگست 2020 کو کل 184 افراد کو مختلف سول ایوارڈ دینے کا اعلان کیا گیا تھا، جن میں پروفیسر ڈاکٹر انوار الحسن گیلانی کو (سندھ) سائنس کی خدمات پر ایوارڈ کا اعلان ہوا تھا، جس کے بعد 23 مارچ 2021 کو ملک کی 2 اہم شخصیات کو تمغہ ہلال امتیاز سے نوازا گیا تھا، جن میں پروفیسر ڈاکٹر انوار الحسن گیلانی اور ڈاکٹر آصف محمود جاہ شامل تھے۔

وائس چانسلر انوار الحسن گیلانی اپنے لیٹر پیڈ، سی وی اور جامعہ ہری پور سے جاری ہونے والی ہر خبر میں بھی ہلال امتیاز کو نمایاں کرتے ہیں،جس کے بعد ہری پور یونیورسٹی کے سابق لیکچرار حاجی محمد راشد کی جانب سے ایف آئی اے حکام کو لکھی گئی شکایت میں انکشاف کیا گیا تھا کہ انوار الحسن گیلانی نے گمراہ کن معلومات اور اصل حقائق کو مخفی رکھ کر ایوارڈ ہلال امتیاز حاصل کیا ہے۔

درخواست میں آئین پاکستان کے آرٹیکل 259 کی صدارتی ترمیم برائے 1981 کی شق نمبر 12 کا حوالہ دیکر لکھا گیا ہے کہ پاکستان اکیڈمی آف سائنس سے ڈاکٹر انوار الحسن گیلانی نے ابن الہیشم پرائز 1985 میں حاصل کیا اور سری لنکا سے ٹیلنٹڈ ایوارڈ 1998 میں حاصل کیا تھا،جس کے لئے انہوں وفاقی حکومت سے اجازت نہیں لی تھی۔

 

28 اپریل 1975 کو شائع ہونے والے گزٹ آف پاکستان کے ایکٹ نمبر XLIII کی سیکشن 4 کے مطابق کوئی ایسا شخص جو قانون پر عمل درآمد نہ کرے وہ ہلال امتیاز کا حق دار نہیں بن سکتا ہے، آفیشل ڈیکورم اور درج بالا معلومات کے مطابق ڈاکٹر انوارالحسن گیلانی نے سیکرٹری ہائر ایجوکیشن اور گورنر سے بھی اس کی اجازت نہیں لی تھی، درخواست میں مزید بتایا گیا ہے کہ ڈاکٹر انوار الحسن گیلانی نے جو معلومات دی ہیں ان کے مطابق انہیں 2005 میں ستارہ امتیاز مل چکا ہے، جس میں  انہوں نے بعینہ وہی معلومات اور کارکردگی ظاہر کی ہے جو 2020 کے ہلال امتیاز کی درخواست میں جمع کرائی ہیں۔

سیکشن اے (II) کے مطابق انہوں نے مختلف شعبہ جات میں جو کارکردگی ظاہر کی ہے اس میں ان کا ایڈمنسٹریشن کا 15 سالہ تجربہ ہے، جس کے10 نمبر ہیں جب کہ ڈاکٹر انوار الحسن گیلانی کا تجربہ کم ہے، سیکشن اے (iii) کے مطابق مختلف شعبہ جات کی کارکردگی کے تحت انہوں نے بین الاقوامی سطح پر شائع ہونے والی مطبوعات پر 30 نمبر حاصل کئے ہیں جب کہ انہی معلامات کی بنیاد پر انہوں نے ستارہ امتیاز بھی لیا تھا۔

درخواست میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ امپیکٹ فیکٹر جنرلز میں آرٹیکل شائع ہونے کے جو 15 نمبر حاصل کئے گئے ہیں، وہ تمام 2005 سے قبل شائع ہوئے تھے جن پر وہ ستارہ امتیاز حاصل کر چکے ہیں، جن کی تصدیق کی جا سکتی ہے۔ سیکشن اے (vi) کے مطابق ڈاکٹر گیلانی نے ہلال امتیاز کے لئے یہ بھی لکھا ہے کہ انہوں  نے 2005 سے 2020 تک 20 پی ایچ ڈی اسکالرز اور 20 سے زائد ایم فل اسکالرز بنائے ہیں جب کہ یہ ہائر ایجوکیشن کمیشن کے رولز کے خلاف ہے۔

درخواست گزار نے ایف آئی اے حکام سے اپیل کی تھی کہ برائے مہربانی اس کیس کو ریویو کریں تاکہ پاکستان کے معتبر سول ایوارڈ کے ساتھ ہونے والی جعل سازی کو بے نقاب کیا جائے اور متعلقہ باڈیز کو بھی مطلع کیا جائے اور ڈاکٹر انوار الحسن گیلانی کو ایوارڈ کی نامزدگی کی درخواست کی انکوائری کی جائے اور اسے ختم کیا جائے کیوں کہ یہ پاکستان کی ساکھ کی بہتری کا معاملہ ہے۔

درخواست گزار نے اپنی شکایت کی کاپی ایڈیشنل سیکرٹری III کیبنٹ ڈویژن کو بھی ارسال کی تھی، جس کے بعد ان کو 2 مارچ 2021 کو دوبارہ یادہانی شکایات بھی کی تھیں، جس کے بعد ایف آئی اے (ACC) ایبٹ آباد کی تفتیشی افسر سحرش زیب کے دستخط سے شکایت کنندہ کے نام حکم نامہ طلبی زیر دفعہ 160Cr.PCجاری کیا گیا تھا، انہوں نے انکوائری نمبر 136/21کے تحت 2 اگست 2021 کو جاری کیا تھا جس میں انہوں نے شکایت کنندہ کو کہا تھا کہ وہ 12 اگست کو ایبٹ آباد موسیٰ کالونی، میر پور روڈ آئیں اور اپنا بیان ریکارڈ کرائیں۔

بعدازاں شکایت کنندہ کو فون کال کے ذریعے بھی اطلاع دی گئی جس پر شکایت کنندہ حاجی محمد راشد نے ایف آئی اے ایبٹ آباد کے حکام کو کہا کہ وہ ضلع ویہاڑی کی تحصیل میلسی میں رہتے ہیں اور اتنا سفر کرکے نہیں آ سکتے،لہٰذا آن لائن یا کوئی دوسرا حل بتائیں،جس پر ایف آئی اے کے حکام نے انہیں  بتایا کہ وہ اسٹامپ پیپر پر اپنا حلفیہ بیان لکھ کر بھیج دیں، جس پر شکایت کنندہ نے اپنا بیان لکھ کر بھیج دیا جس کی موصولی کی تصدیق بھی بعد میں ایف آئی اے حکام نے کر دی تھی۔

تاہم اس دوران جامعہ ہری پور کے وائس چانسلر نے ایڈیشنل رجسٹرار ریاض محمدکے ذریعے شکایت کنندہ کو ہری پور بلایا اور انہیں ڈپٹی رجسٹرار اسٹبلشمنٹ کی خالی اسامی پر تقرری کی لالچ بھی دی کہ وہ درخواست واپس لے لیں، شکایت کنندہ کی جانب سے انکار کے بعد مبینہ طور پر وائس چانسلر نے انہیں دھمکیاں دیں، جس کے بعد حیرت انگیز طور پر ایف آئی اے حکام کی جانب سے کوئی بھی کارروائی کرنے کے بجائے معاملے کو سر د خانے کی نظر کر دیا گیا ہے۔

معلوم ہوا ہے کہ ہلال امتیار کے کاغذات نامزدگی جمع کرانے کی تاریخ میں توسیع بھی ڈاکٹر انوار الحسن گیلانی کی وجہ سے کی گئی تھی، جس کے باوجود انہوں نے مبینہ طور پر جعل سازی اختیار کی ہے۔جبکہ یونیورسٹی کے دو متعلقہ اہم ترین شعبہ جات جن میں QEC اور ORIC کی جانب سے تفصیلات ادھوری ہونے کی وجہ سے دستخط بھی نہیں کئے تھے۔ جب کہ ایوارڈ کے لیے سفارش کرنے والے ادارے نے اس بات کا حلفیہ بیان بھی جمع کرانا ہوتا ہے کہ مذکورہ شخص کو گزشتہ پانچ سالوں میں پاکستان سول ایوارڈ کسی بھی درجے میں نہیں دیا گیا ہے۔

اس حوالے سے جامعہ ہری پور کے وائس چانسلر انوار الحسن گیلانی نے اپنا موقف بیان کرتے ہوئے کہا کہ میں نے ہلال امتیاز کیلئے جو معلومات دی ہیں وہ ستارہ امتیاز کیلئے نہیں دی تھیں، کیونکہ 14 اگست 2004 کو پہلے سول ایوارڈ کا اعلان ہوا تھا۔ ڈاکٹر گیلانی نے بتایا کہ کوئی انکوائری زیر التواء نہیں ہے اور میرے ہلال امتیاز کا فارم مقررہ پہلی تاریخ کو ہی جمع ہوا تھا، سلیکشن بورڈ کے حوالے سے انہوں نے بتایا کہ فی الحال سلیکشن بورڈ کے کسی پلان کا اعلان نہیں کیا گیا ہے جبکہ سائنسی برادری میں میری پیشہ ورانہ قابلیت و دیانتداری مشہور ہے۔

مزید پڑھیں: جامعہ ہری پور ہراسمنٹ میں ملوث 1 استاد فارغ دوسرے کا کیس FIA کو بھیجنے کا فیصلہ

واضح رہے کہ نشان امتیاز کے بعد ہلال امتیاز دوسرا بڑا سول تمغہ ہے، حکومت پاکستان اب تک شیر خان، عابدہ پروین، جوش ملیح آبادی، عبدالحفیظ کاردار، انصار برنی، ضیا محی الدین، اطہر عباس، اشفاق احمد اور افتخار عارف جیسے ہیروز کو اس تمغے سے نواز چکی ہے۔

Related Posts