سیاستدان مفاہمت کی راہ اختیار کریں

مقبول خبریں

کالمز

Munir-Ahmed-OPED-750x750-1
پرتگال اور پاکستان کے درمیان 75 سالہ خوشگوار سفارتی تعلقات
Munir-Ahmed-OPED-750x750-1
دھوکا دہی کے بدلے امن انعام؟
Ceasefire or a Smokescreen? The US-Iran Next Dialogue of Disillusions
جنگ بندی یا دھوکہ؟ امریکا اور ایران کے درمیان فریب پر مبنی اگلا مکالمہ

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

حکمران اتحاد میں شامل جماعتوں نے تحریک انصاف کے چیئرمین اور سابق وزیراعظم عمران خان کی نااہلی کے لیے الیکشن کمیشن میں ریفرنس دائر کر دیا ہے۔ ذرائع ابلاغ کے مطابق دائر کردہ ریفرنس میں پارٹی اثاثوں کی تفصیلات ظاہر کرنے سے متعلق غلط بیانی پر آئین کے آرٹیکل 62 ون ایف اور 63 ٹو کے تحت کارروائی کا مطالبہ کیا گیا ہے۔

پاکستان تحریک انصاف اور جناب عمران خان کے خلاف پارٹی اثاثوں اور پارٹی کے ذرائع آمدن کے متعلق یہ کیس پاکستان کی قومی سیاست کا ایک ایسا موضوع ہے جس پر طویل عرصے سے بحث و تمحیص کا سلسلہ جاری ہے۔ انتخابی قوانین کے مطابق الیکشن کمیشن آف پاکستان میں رجسٹرڈ تمام سیاسی جماعتوں کو اپنے گوشوارے، اثاثے اور فنڈنگ کے ذرائع کے متعلق تفصیلات جمع کرنا ضروری ہے۔ 14 نومبر 2014ء کو پی ٹی آئی کے بانی رکن اکبر ایس بابر کی جانب سے الیکشن کمیشن میں کیس دائر کیا گیا کہ پارٹی چیئرمین نے بیرون ملک سے حاصل ہونے والی فنڈنگ کی تفصیلات سے کمیشن کو آگاہ کرنے میں غلط بیانی سے کام لیا ہے۔ درخواست میں اس غلط بیانی کی بنیاد پر پارٹی چیئرمین اور مرکزی عہدیداروں کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کیا گیا۔ کیس دائر ہونے کے بعد تحریک انصاف اور جناب عمران خان نے اس کیس کو زیادہ سنجیدہ نہیں لیا اور مسلسل نظر انداز کرتے رہے۔ تاہم کیس آگے بڑھنا شروع ہوا تو پارٹی کی دلچسپی اور سنجیدگی بھی بڑھ گئی اور رفتہ رفتہ تحریک انصاف کی قیادت کو احساس ہوتا چلا گیا کہ یہ کیس ان کے گلے کا پھندا بن سکتا ہے۔

الغرض 2014 سے چلا آنے والا یہ کیس مختلف مراحل اور نشیب و فراز سے گزرتا ہوا بالآخر گزشتہ دنوں تحریک انصاف کے مخالف حکمران اتحاد کے شدید دباؤ پر اپنے منطقی انجام کو پہنچا دیا گیا۔ خیال کیا جا رہا تھا کہ یہ کیس بھی دیگر سیاسی مقدمات کی طرح غیر مرئی “مداخلت” کے نتیجے میں مسلسل لٹکایا جاتا رہے گا اور حسب ضرورت اس کی رسی ڈھیلی اور سخت کی جاتی رہے گی۔ تاہم دو باتیں ایسی ہوئیں کہ اس کیس کو لٹکائے رکھنے میں اگر کوئی غیبی دلچسپی تھی بھی تو مزید اسے لٹکائے رکھنا مشکل ہوگیا۔ پہلی وجہ خود جناب عمران خان کی مسلسل جارحانہ اور مخالفین کے تئیں بے لچک طرز سیاست ہے، سیاسی مبصرین کا ماننا ہے کہ عمران خان اگر مفاہمت کی سیاست شعار کرلیتے اور مخالفین کو برداشت کرنے کی روش اپنا لیتے تو آج ان کی اور ان کی پارٹی کی سیاست بند گلی کی طرف بڑھتی نظر نہ آتی۔ دوسری وجہ ان کے مخالف حکمران اتحاد کا یکسو ہو کر الیکشن کمیشن پر مسلسل دباؤ بڑھانا ہے، حکمران اتحاد در اصل یہ ثابت کروانا چاہتا تھا کہ اس کیس کا فیصلہ سامنے آجائے تو لوگوں کو پتا چلے کہ دوسروں کو چور چور کہنے والا عمران خان خود کتنے پانی میں ہے؟ یہ وہ عوامل ہیں، جن کے باعث اس کیس کو مزید لٹکائے رکھنا ممکن نہیں رہا اور پاکستان کی سیاست کا ایک متنازع اور طویل سیاسی مقدمہ فیصل ہو کر رہا۔

ممنوعہ فنڈنگ کیس کا فیصلہ سامنے آنے کے بعد اسی بات کا امکان ظاہر کیا جا رہا تھا کہ حکمران اتحاد اس فیصلے کی روشنی میں مقدمہ آگے لے جائے گا، چنانچہ حکمران اتحاد نے اس فیصلے کے آئینی تقاضوں کو پورا کرنے کیلئے تحریک انصاف اور عمران خان کے خلاف مزید کارروائی کیلئے ریفرنس دائر کر دیا ہے، جبکہ تحریک انصاف تا حال کمیشن کے فیصلے کے خلاف احتجاج پر ہے۔

یہ تمام معاملات ایک ایسے موقع پر قوم کے سامنے آئے ہیں جب ملکی معیشت کو دیوالیہ پن کے سنگین خطرات کا سامنا ہے۔ معاشی استحکام کیلئے سیاسی استحکام لازمی امر ہے، جب تک ملک میں سیاسی استحکام نہیں آئے گا، معیشت پر بھرپور توجہ نہیں دی جا سکے گی اور سیاسی عدم استحکام معاشی بحالی کے اقدامات پر منفی اثرات مرتب کرتا رہے گا۔ سیاسی استحکام کیلئے اس امر کی ضرورت ہے کہ تمام سیاسی جماعتیں اور سیاستدان ایک دوسرے کو برداشت کریں، اختلافی مسائل حل کرنے کرنے کیلئے مل بیٹھیں۔ آخر یہ کیسی سیاست ہے کہ کوئی بھی دوسرے کا وجود برداشت کرنے کیلئے تیار نہیں ہے۔ سیاستدانوں کی اس بے لچک دشمنی کے نتائج قوم بدترین معاشی صورتحال کی شکل میں بھگت رہی ہے۔

تمام سیاسی جماعتوں کو یہ بات ملحوظ خاطر رکھنی چاہیے کہ اس وقت ملکی معیشت ابتری کی جس سطح پر جا پہنچی ہے اس میں بہتری کسی ایک جماعت کے بس کی بات نہیں ہے، جبکہ یہ طے ہے کہ معیشت کو اس حال تک پہنچانے میں سبھی کا کچھ نہ کچھ حصہ ضرور شامل ہے۔ باہمی جھگڑے اور سیاسی عدم استحکام بہت ہوگیا، خدا را اب ذرا تحمل کا مظاہرہ کریں۔ ایک دوسرے کو برداشت نہ کرنے اور ایک دوسرے کیخلاف گڑھے کھودنے کا نتیجہ مسلسل معیشت کی ابتری کی صورت میں ہی سامنے آ رہا ہے۔ معیشت کی بحالی کی اہم ترین ضرورت کا تقاضا ہے کہ تمام سیاستدان قوم کے وسیع تر مفاد میں اپنی انا کو ایک طرف رکھیں، جو جہاں حکومت میں ہے، وہ وہاں اپنا کام کرے، محاذ آرائی ختم کریں اور اپنے جھگڑوں اور اختلافات کو بالائے طاق رکھ کر معاشی بحالی کیلئے اشتراک عمل کی طرف آئیں۔ معیشت کی تباہی سے ریاست کا وجود خطرے میں ہے!

Related Posts