پاکستان جغرافیائی طور پر ایک ایسے محل وقوع کا حصہ ہے، جسے قدرت نے معتدل موسمی حالات ودیعت کر رکھے ہیں۔ چاروں موسم ایک اعتدال کے ساتھ اپنے وقت اور ترتیب پر آتے اور جاتے ہیں۔ گرما، سرما، بہار اور خزاں اپنے اپنے قدرتی نفع و مضرت کے ہمراہ اثرات مرتب کرتے ہیں اور یہ سلسلہ بنا کسی بڑے تغیر کے تسلسل سے جاری و ساری ہے۔
اس میں شک نہیں کہ صنعتی ترقی کے منفی اثرات سے دنیا گلوبل وارمنگ اور موسمیاتی تغیر کی زد میں ہے۔ پاکستان اگرچہ کوئی بڑا صنعتی پیداواری ملک نہیں، مگر ایک بہت بڑی آبادی کا ملک ہونے کے باعث آبادی کی بڑے پیمانے پر ضروریات کے پیش نظر ایک حد تک بڑے دائرے میں صنعتی سرگرمیوں کا حصہ دار ہے۔ پھر بد قسمتی سے ضروری احتیاطی تدابیر اور صنعتی تحفظ کے قوانین پر عمل در آمد کی صورتحال غیر تسلی بخش ہونے کے باعث صنعتی سرگرمیوں کے منفی ماحولیاتی اثرات یہاں عروج پر ہیں، چنانچہ دنیا کے دیگر ملکوں کی طرح گلوبل وارمنگ سے وابستہ مسائل یہاں بھی سر اٹھاتے رہتے ہیں۔
جولائی اور اگست روایتی طور پر پاکستان میں مون سون بارشوں اور برسات کے مہینے کہلاتے ہیں، ان دو مہینوں میں پاکستان کے شمال سے جنوب اور پہاڑی علاقوں سے شہروں تک ہر جگہ بارشوں کی توقع کی جاتی ہے۔ بارشیں قدرت کا انمول تحفہ ہیں۔ بارشوں کے حوالے سے بھی پاکستان دنیا کے معتدل اور خوش قسمت ملکوں میں شامل ہے، تاہم اس کے ساتھ ساتھ ایک بڑی بد قسمتی بھی بارشوں کے ساتھ ہی جڑی ہوئی ہے اور وہ ہے بارشوں سے فائدہ اٹھانے کی اہلیت کی غیر موجودی۔ یہ ایک ایسی کمی اور نا اہلی ہے کہ اس کے باعث پاکستان سالانہ کھربوں روپے کا پانی ضائع کرنے پر مجبور ہے۔
بارشوں سے فائدہ اٹھانے کے کئی طریقے دنیا میں رائج ہیں، بد قسمتی سے پاکستان میں سوائے چند ناکافی ڈیموں کے، بارشوں کے پانی سے فائدہ اٹھانے کا کوئی معقول طریقہ کار موجود نہیں ہے۔ بڑی تعداد میں ڈیم اور پانی اسٹور کرنے کے دیگر چھوٹے بڑے ذرائع نہ ہونے کے باعث نہ صرف یہ کہ پاکستان کا بہت بڑا اراضی بنجر پڑا رہتا ہے، بلکہ ساتھ ہی سیلابوں سے بھی ہر سال بڑے پیمانے پر تباہی پھیل جاتی ہے۔
اس مرتبہ کئی سال کے وقفے کے بعد ایک بار پھر ملک بھر میں طوفانی بارشوں کا سلسلہ جاری ہے۔ جولائی کا پورا مہینہ موسلا دھار بارشیں برستے اور سیلابوں سے لوگوں کے نبرد آزما ہوتے گزرا ہے۔ اب اگست شروع ہو چکا ہے اور ساتھ ہی بارشوں کا ایک اور طوفان خیز سسٹم سر پر ہے۔ اب تک کی سیزنل بارشوں نے بری طرح ہمارے ملکی نظام کو بے نقاب کرکے رکھ دیا ہے۔ یہ واضح ہو چکا ہے کہ این ڈی ایم اے اور پی ڈی ایم اے سے لیکر شہری اور بلدیاتی اداروں تک جن کا کام بارشوں اور قدرتی آفات و حادثات میں فوری رسپانس کرکے نقصانات کو کم سے کم کرنا ہے، یہ سب ادارےقوم پر بوجھ کے سوا کچھ بھی نہیں ہیں۔ کس قدر افسوس کی بات ہے کہ بھاری بجٹ کھانے کے باوجود ان میں سے کوئی بھی ادارہ اپنی جگہ کام کرتا دکھائی نہیں دیتا۔