اس نے نفی میں جواب دیا تو میں نے کہا
“پھر تم فلم یا ڈرامے سے کیسے محظوظ ہو لیتے ہو ؟”
اس نے کہا“مزہ تو آتا ہے، سٹوری اور ایکشن سب لطف دیتا ہے”
عرض کیا
“جس چیز کا حصول تم لطف سمجھ رہے ہو وہ لطف نہیں بس وقتی تسکین ہے۔ جو حاصل بھی فقط فلم کے شور اور بھاگتے دوڑتے کرداروں اور ہتھیاروں کی آوزوں سے ہے۔ تم نے بس بدلتے مناظر اور آوازوں کو ہی کل کائنات سمجھ رکھا ہے۔ ورنہ حالت تمہاری بھی بس اس شخص کی سی ہے جسے رنگوں کی زبان تو نہ آتی ہو مگر کھڑا وہ پکاسو کے ماسٹر پیس کے سامنے ہو”
اس کے بعد میں نے اس موضوع پر قدرے مفصل بات شروع کردی۔ اگلا ڈیڑھ گھنٹہ میرے بچے مبہوت ہوکر وہ سب سنتے ہی نہیں دیکھتے بھی رہے۔ کیونکہ میں نے لیپ ٹاپ پر اپنے فلموں کے ذخیرے سے کچھ فلموں کے سین دکھا کر انہیں فن کی باریکیاں سمجھائیں بھی۔ اس گفتگو میں سب سے دلچسپ موقع وہ تھا جب وقاص نے الپاچینو اور رابرٹ ڈینیرو کو سب سے بڑے ایکٹر بتایا۔ اور میں نے اس دعوے کو قبول کرنے سے انکار کردیا۔ اور پھر اسے سمجھایا کہ امریکہ میں مافیا کا راج تھا۔ چنانچہ جب مافیا پر فلمیں بننی شروع ہوئیں تو عوامی دلچسپی قدرتی تھی۔ انہی فلموں سے الپاچینو اور رابرٹ ڈینیرو کے کیریئر کا آغاز ہوا تھا۔
سو ان کا نام بھی مقبولیت کی بلندی پاتا چلا گیا۔ لیکن اس بات سے کیسے انکار کیا جاسکتا ہے کہ علم و فن کے باب میں عوامی رائے نری جہالت ہوتی ہے۔ جب فن اداکاری کی بات ہوگی اور یہ بات ماہرین فن کے بیچ ہوگی تو وہ کسی صورت بھی الپاچینو یا رابرٹ ڈینیرو کو سب سے بڑے دو ایکٹر قرار نہیں دے سکتے۔ فن کو باکس آفس کی کمائی سے نہیں بلکہ فن کی بنیاد پر جانچا جاتا ہے۔ اگرچہ فلموں کے بھی باقاعدہ نقاد ہوتے ہیں جو ریویو لکھتے ہیں لیکن یہ لوگ دیانتدارانہ رائے نہیں رکھتے۔ یہ مارکیٹنگ کمپنیوں سے ملے ہوتے ہیں۔ ورنہ خالص فنی پیمانے پر الپاچینو اور رابرٹ ڈینیرو دونوں مل کر بھی انتھونی ہاپکنز کے صرف ایک ایکسپریشن کا بھی مقابلہ نہیں کرسکتے۔
اگلے دن اسی طرح از خود ہی سیاست اور سیاسی نظریے زیر بحث آگئے۔ دو گھنٹے اس پر لگ گئے۔ اور اس طرح نہیں کہ کوئی لیکچر جھاڑا جا رہا ہے یا وعظ فرمایا جا رہا ہے۔ بلکہ تبادلہ خیال کی طرح کی صورتحال رہی۔ میرے بیٹے سوالات بھی اٹھاتے رہے اور بعض چیزوں کی وضاحت بھی مانگتے رہے۔ یعنی باقاعدہ گپ شپ کا اسلوب رہا۔ مثلا ایک اہم سوال یہ زیر بحث آیا کہ یہ جو کہا جاتا ہے کہ مغرب نے ترقی تب کی جب اس نے سیکولرازم اختیار کیا۔ لھذا ہم بھی ترقی تب ہی کر سکتے ہیں کہ مذہبی ریاست کے بجائے سیکولر ریاست کی طرف چلے جائیں۔
کیا یہ بات واقعاتی طور پر درست نہیں ؟ اس پر عرض کیا کہ عیسائی مذہب میں سرے ریاست کا کوئی تصورہی نہیں۔ نہ تو حضرت عیسی علیہ السلام نے اس کے لئے کوشش کی، نہ ریاست بنائی اور نہ ہی اس حوالے سے کوئی تلقین فرمائی۔ چنانچہ اصولی طور پر پادریوں کا مذہبی ریاست بنانا ہی غلط تھا۔ یہ قومیں جب تک اس غلطی پر قائم رہیں ترقی نہ کرسکیں۔ جوں ہی سیکولرزم کی طرف گئے یعنی سیاسی امور سے خالی عیسائی مذہب کا لیبل ریاست سے ہٹا دیا تو ان کی ترقی کا عمل شروع ہوا۔
اس کے برخلاف اسلام میں ریاست کا باقاعدہ تصور موجود ہے۔ یہ نہ صرف عملی طور پر وجود میں آئی بلکہ دور رسالت میں سفارتکاروں کی آمد و رفت بھی شروع ہوئی۔ خود قرآن جب چور کے ہاتھ کاٹنے کی سزا طے کرتا ہے تو ریاست کے لئے ہی کرتا ہے۔ وہ خدا نخواستہ شہری کو شہری کا ہاتھ کاٹنے کا حق نہیں دیتا۔ اسی طرح جب وہ دفاع اور معیشت سے متعلق احکام دیتا ہے تو یہ بھی ریاست کے لئے ہی ہیں۔ چنانچہ جب تک ہماری مذہبی ریاست اپنی مستحکم شکل میں موجود رہی مسلمان علم و فن کے میدان میں ترقی کرتے رہے۔
جوں ہی مذہبی ریاست کمزور ہوئی ہمارا ترقی کا عمل رک گیا جو تاحال رکا ہوا ہے۔ اور یہ تب ہی بحال و مستحکم ہوسکتا ہے جب مذہبی ریاست بحال اور مستحکم ہوگی۔ ہم نے ترقی کی ہی مذہبی دور میں ہے۔ ہمارا تنزل تو شروع ہی تب ہوا ہے جب مذہبی ریاست کمزور ہوگئی اور یہ عملا رفتہ رفتہ سیکولر نما سی ہوتی چلی گئی۔
تیسرے دن یہ موضوع زیر بحث آگیا کہ بحیثیت مجموعی آرٹ کیا ہے ؟ آرٹسٹ کون ہوتا ہے ؟ اس میں موسیقی، مصوری اور پرفارمنگ آرٹ سمیت سب زیر بحث آئے۔ اسی ضمن میں عرض کیا کہ آرٹسٹ تب تک کسی خوبصورتی کو جنم دے ہی نہیں سکتا جب تک وہ مظاہر قدرت کو اپنے اندر جذب کرنا نہ سیکھ لے۔ پھر اس کی تفصیل میں عرض کیا کہ صحرا اور خزاں کا حسن کیا ہوتا ہے؟
حسن اگر صرف کھلتے رنگوں کا نام ہوتا تو سانولی رنگت والے چہرے کیسے دل لےپاتے ؟ جنہیں سیاہ فام بدصورت نظر آتے ہوں ان کا شعورِ حسن ہی ادھورا ہے۔ یہ بھی سمجھایا کہ بارش کو پورے حواس کے ساتھ کیسے محسوس کیا جاتا ہے ؟ بالخصوص اس کا صوتی جمال تو پورا آرکسٹرا ہے، دنیا کا سب سے شاندار آکسٹرا۔آرٹسٹ کو اس آرکسٹرا کا لطف لینا اور اپنے اندر جذب کرنا آنا چاہئے۔ اگر وہ چہرے پر پڑتی بارش کی بوندوں اور ٹھنڈی ہوا کے تھپیڑوں کو ہی “لطف” سمجھتا ہے تو اسے یقین کامل رکھنا چاہئے کہ وہ آج تک بارش کا ادنی ترین لطف بھی نہ لے سکا ہے۔
جب وہ جمال اپنے وجود کے برتن میں بھر ہی نہیں سکتا تو اس برتن سے جمال بانٹ کیسے سکتا ہے ؟ اس کا تو برتن ہی خالی ہے۔ ٹھنڈی ہوا اور پانی کی بوندیں تو روم کولر بھی دے سکتا ہے۔ سو آرٹسٹ ہے ہی وہ جو جمال کو اس کی پوری جزیات کے ساتھ اپنے اندر اتارنا جانتا ہو۔ جتنا یہ جمال کو جذب کرے گا، اتنا ہی وہ اس کے متعلقہ آرٹ فام میں اظہار کرے گا۔
پھر سمجھایا کہ بعض مرتبہ آرٹسٹ بنانا کچھ شروع کرتا ہے بن کچھ جاتا ہے۔ یہ مصور سے لے کر رائٹر تک سب کے ساتھ ہوتا ہے۔ اور بڑے آرٹسٹوں کے ساتھ ہی ہوتا ہے۔ یہ درحقیقت فن خود اپنی راہ بنا رہا ہوتا ہے۔ یعنی فن کا اظہار آرٹسٹ پر ہی حاوی ہوجاتا ہے۔ ایسے ماسٹر پیس کو دیکھ کر خود وہ آرٹسٹ ہی دنگ رہ جاتا ہے۔ یہی چیز ایکٹر کے معاملے میں یوں پیش آتی ہے کہ بڑا ایکٹر سکرپٹ سے نکل جاتا ہے۔
ایسے مواقع پر ڈائریکٹر اگر کہنہ مشق ہو تو کبھی بھی چلا کر “کٹ” نہیں کہتا۔ وہ سین کو چلنے دیتا ہے۔ کیمرہ رول ہو رہا ہوتا ہے۔ ایسے بہت سے سین فلموں کا باقاعدہ حصہ بن گئے ہیں۔ مثلا جینگو اَن چینڈ میں لیونارڈو ڈی کیپریو کے ہتھوڑے والے سین میں اسے سچ مچ کی چوٹ لگی ہے اور خون اس کا اپنا ہی نکلا ہے۔ لیکن اس نے سین جاری رکھا اور ڈائریکٹر نے “کٹ” پکارنے کے بجائے سین کی ریکارڈنگ جاری رکھی۔ کوئی احمق سا ڈائریکٹر ہوتا تو فورا ریکارڈنگ بند کرکے ایمبولینس کال کرتا۔
اب اگر آپ غور کیجئے تو یہ وہ باتیں ہیں جو سالوں سے میرے شعور کا حصہ ہیں۔ مگر میرے بچے ان سے محروم رہے۔ ایک ہی گھر میں رہنے کے باوجود محروم رہے۔ کیوں ؟ کیونکہ میرے پاس تو اپنے ہی بچوں کے لئے وقت نہ تھا۔ میں تو سوشل میڈیا کے گوشہ تنہائی میں سڑ رہا تھا۔ دو ڈھائی گھنٹے کے اس وقت کے علاوہ بھی اب اکثر بچوں میں سے کوئی آکر کوئی موضوع چھیڑ دیتا ہے اور مجھے سننا چاہتا ہے۔ وہ میرے کہے پر باقاعدہ سوال بھی اٹھاتے ہیں جس کی پھر میں وضاحت کرتا ہوں۔
کسی سوال کا جواب میرے پاس بھی نہ ہو تو صاف کہدیتا ہوں کہ اس کا مجھے علم نہیں۔ مثلا طارق نے معیاشیات سے متعلق ایک سوال پوچھا تو میں نے صاف کہدیا کہ یہ موضوع ہی میرے فہم سے ماورا ہے۔ معاشیات کا کوئی ماہر ہی اس پر روشنی ڈال سکتا ہے۔ الغرض کہ پہلی بار اپنے ہی بچوں کا استاد بننے کا موقع میسر آیا ہے ورنہ ان کی پیدائش سے لے کر اب تک تو میں فقط مربی ہی تھا۔ اگر میرے سیکھے ہوئے سے میرے ہی بچے محروم رہ جائیں اور وہ بھی صرف اس لئے کہ میرے پاس ان کے لئے وقت نہ تھا۔
میرا وقت تو صرف سوشل میڈیا کے لئے تھا تو اس سے بڑی بدقسمتی کوئی اور ہوسکتی ہے ؟ پھر سوشل میڈیا پر تو ستم یہ ہے کہ آپ کی اولاد کی عمر کے بچے آپ کو محض اس جرم کی سزا کے طور پر گالی دیتے ہیں کہ آپ انہیں اپنی عمر بھر کا نچوڑ فری میں پیش کر رہے ہیں۔ جن کا اپنا شعور صرف بازار سے دال سبزی خریدنے جتنی صلاحیت کا ہے وہ آپ کے شعور کو چیلنج کر رہے ہوتے ہیں۔ یعنی ان کا مطالبہ آپ سے یہ ہوتا ہے کہ آپ اپنی شعوری سطح سے اتر کر ان کی دال سبزی خریدنے والی سطح پر آکر بات کیوں نہیں کرتے ؟جسے اتنا بھی شعور نہ ہو کہ اس کا شعور بہت پست حالت میں ہے وہ شعوری ترقی کا سوچ بھی سکتا ہے ؟
پچھلے دو ہفتے سے ہمارے گھر کی صورتحال اسی انداز سے چل رہی ہے۔ البتہ ایک ترمیم یہ کردی ہے کہ اگر کسی وجہ سے شام سے قبل ہی سوشل ایکٹوٹی ہوگئی تو پھر اس روز شام کو وفائی فائی کھلا چھوڑ دیتے ہیں۔ یوں شام کی یہ دو ڈھائی گھنٹے کی سرگرمی میرے جوان بچوں پر بوجھ نہیں بنتی۔ ان دو ہفتوں کے دوران گھر کا پوارا ماحول ہی بدل کر رہ گیا ہے۔ اور سچ پوچھئے تو یوں لگتا ہے جیسے اپنے بچوں سے بہت سالوں بعد ملاقاتیں ہو رہی ہیں۔
اس کے مثبت اثرات ان کے چہروں پر بھی ہیں اور خود میں بھی اب اکثر بے سبب ہی خوش و خرم رہتا ہوں۔ ورنہ اس سے قبل تو حالت یہ تھی کہ خوش ہونے کے لئے بھی کوئی سبب تلاش کرنا پڑتا تھا۔ طبیعت گھومنے پھرنے کے لئے مچلنے لگی ہے اور بہت شدت سے جی کرتا ہے کہ دوستوں کی محفل جمی ہو، جہاں گرم کافی اور ڈھیر ساری غیبت کا پورا انتظام ہو۔ غیبت لفظ ہی یہ بتانے کے لئے کافی ہے کہ طبیعت شرارتی ہوئی جاتی ہے۔
ہاں ! چڑچڑا پن ابھی بدستور موجود ہے۔ خلاف طبیعت بات اب بھی پارہ ہائی کر دیتی ہے۔ لیکن بخوبی جانتا ہوں کہ یہ چڑچڑا پن بھی اب رفتہ رفتہ ٹھیک ہوتا چلا جائے گا۔ کیونکہ اب موڈ ہمہ وقت خراب نہیں بلکہ خوشگوار حالت میں ہوتا ہے۔ طبیعت سے اداسی کے بادل چھٹ چکے، ا ب دن میں وہ نیلگوں اور رات میں تاروں بھرے آسمان جیسی چل رہی ہے۔ (ختم شد)