وباء کی طرح پھیلتا ڈپریشن۔پہلا حصہ

مقبول خبریں

کالمز

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

انسان اپنی زندگی میں جو کام سب سے زیادہ کرتا ہے، وہ سیکھنا سکھانا ہے۔ یہ عمل اس کی سب سے بڑی سرگرمی اس لئے ہے کہ جب یہ دیکھتا ہے تب بھی یا کچھ نیا سیکھ جاتا ہے یا پچھلے سیکھے ہوئے کی تصدیق یا تردید ہوجاتی ہے۔ یہی صورتحال سننے کے معاملے میں بھی ہے۔ یوں اس کے عالم بیداری کی ہر سرگرمی سیکھنے سکھانے کا ہی باعث بنتی رہتی ہے۔ حتی کہ سیکھنے سکھانے کا یہ عمل لاشعوری طور پر بھی جاری رہتا ہے۔ انسانوں کے مابین آراء کا اختلاف بھی درحقیقت اپنی سیکھ کا دوسروں سے تبادلہ ہی ہوتا ہے۔ قدم قدم پر جب وہ کسی سے کوئی مشورہ طلب کرتا یا دیتا ہے تو یہ بھی ایک تعلیمی سرگرمی ہی ہوتی ہے۔ انسان کسی ایسے معاملے میں ہی مشورہ طلب کرتا ہے جہاں اس کی اپنی سیکھ اس کی اپنی نظر میں نامکمل ہونے کے سبب ناقابل اعتماد ہوتی ہے۔ سیکھتا انسان دو بڑے ذرائع سے ہے۔ ایک کتاب یعنی تعلیم اور دوسرا ذاتی عمل و مشاہدہ جسے تجربہ کہا جاتا ہے۔ پھر ان دونوں ذرائع میں دو بڑے فرق ہیں۔ تعلیم کے بغیر انسان بود و باش کرسکتا ہے۔ جبکہ تجربے کے غیر بالکل نہیں۔ ہم لاتعداد انسانوں کو دیکھتے ہیں کہ تعلیم بالکل نہیں رکھتے مگر پرآسائش زندگی جی رہے ہوتے ہیں۔ اس کے برخلاف اگر آپ کسی انسان کو بہت کم عمری میں جنگل میں تنہا چھوڑ دیں۔ اور جوانی میں اسے انسانی معاشرت میں لے آئیں تو اس کے لئے جینا ایک تشدد بن جائے گا۔ کیونکہ اسے معاشرتی زندگی کا کوئی تجربہ نہ ہوگا اور تجربہ انسانوں کو باہمی میل جول سے ہی حاصل ہوتا ہے۔ دوسرا فرق یہ ہے کہ انسان کتابی سیکھ بہت آسانی سے بھول جاتا ہے۔ ہم ایسے کئی انجینئرز یا ڈاکٹرز سے ملتے رہتے ہیں جن سے انجینئرنگ یا طب کے میدان میں مدد طلب کریں تو وہ یہ کہہ کر ہاتھ کھڑے کر لیتے ہیں کہ ان کی تعلیم ضرور انجینئرنگ یا میڈیکل کی ہے مگر وہ “پریکٹس” نہیں کرتے اور جو پڑھ رکھا ہے اسے بہت مدت ہوگئی ہے۔ لہٰذا بہتر یہی ہے کہ کسی ایسے انجینئر یا ڈاکٹر سے رجوع کرلیں جو اسی میدان میں سرگرمی رکھتا ہو۔ اس کے برخلاف تجربے سے سیکھی ہوئی ہر چیز انسان کو یاد رہتی ہے۔ بالخصوص اگر وہ تجربہ ٹھوکروں پر مشتمل ہو۔

رعایت اللہ فاروقی کے مزید کالم پڑھیں:

ثواب کی سیاست

بائیڈن کا ٹوپی ڈرامہ

با اثر ملزمان

غُنے کا عشق !

یہ تمہید آپ سے ایک بہت ہی اہم تجربہ بانٹنے کے لئے باندھی ہے۔ اور تجربہ بھی ایسا جو بالکل تازہ ہے۔ مجھے چند سال سے ڈپریشن کے عارضے نے گھیر رکھا ہے۔ جو بڑھتے بڑھتے خاصی شدت اختیار کرگیا۔ ڈیڑھ سال قبل کسی نے ایک بہت ہی مستند نیورالوجسٹ کی جانب ریفر کیا۔ انہوں نے معائنے کے بعد بتایا کہ دماغ کے کچھ کیمکلز ہیں جن میں عدم توازن کی کیفیت ہے۔ ایک کیمکل کا بتایا کہ وہ بہت کم ہوچکا ہے۔ علاج طویل ہوگا لگ کر کرنا ہوگا۔ ساتھ ہی یہ بھی بتا دیا کہ اس علاج میں کسی خرابی کا علاج نہیں کیا جائے گا۔ بس جو کیمکل کم ہے اسے پورا کیا جائے گا جس سے امید ہے کہ سب ٹھیک ہوجائے گا۔ میں نے تقریباً ڈیڑھ برس دوا لی اور پوری پابندی سے لی۔ اس عرصے میں تیسرے مہینے سے مجھے اپنی طبیعت میں فرق محسوس ہونا شروع ہوا جو بتدریج مزید بہتر ہوتا چلا گیا۔ میں بہت خوش تھا کہ ایک اذیت سے سالوں بعد جان چھوٹ گئی۔

مگر گڑ بڑ تب ہوئی جب علاج مکمل ہونے کے تین ہفتے بعد صورتحال ایک بار پھر وہی پرانی ہوگئی۔ پہلا خیال یہی آیا ایلوپیتھی تو فیل ہوگئی۔ اب ہومیوپیتھی ٹرائی کرنی چاہئے۔ مگر پھر ایک اور خیال آیا جس نے صورتحال یکسر تبدیل کردی۔ وہ خیال یہ تھا کہ ہر انسان اپنی بنیادی ضروریات سے متعلق اوسط علم ضرور رکھتا ہے۔ مثلاً کپڑا ہماری ضرورت ہے تو ہم کپڑوں کے بارے میں اتنا علم ضرور رکھتے ہیں جس کی مدد سے اچھے اور برے کپڑے میں تمیز کرسکیں۔ یہی صورتحال خوراک اور استعمال کی باقی اشیاء کے حوالے سے بھی ہے۔ چنانچہ ہم دیکھتے ہی رہتے ہیں کہ سبزیوں یا دالوں کے فوائد اور سائڈ ایفیکٹس سے متعلق ایسے افراد بھی وافر معلومات رکھتے ہیں جو نہ تو سبزیاں کاشت کرتے ہیں اور نہ ہی باورچی کی حیثیت سے وہ پکاتے ہیں۔ وہ بس سبزی کھاتے ہیں۔ اور یہ چونکہ ان کی ایک اہم ضرورت ہے سو وہ ان کے بارے میں اتنا علم ضرور رکھتے ہیں جتنا انہیں خوراک کا حصہ بنانے کے لئے ضروری ہے۔ مگر تین بڑی ضرورتیں ایسی ہیں جو متمدن مسلم انسان کی بہت ہی بنیادی ضروریات ہیں مگر وہ ان کا اوسط علم بھی نہیں رکھتا۔ پہلی چیز دین کا علم ہے۔ دوسری چیز آئین اور قانون کا علم جبکہ تیسری چیز صحت کا علم ہے۔ ہم نہ تو دین کا اتنا علم رکھتے ہیں کہ اپنے روز مرہ کے معمولات میں جائز اور ناجائز کی تمیز رکھ سکیں، بہت سے ناجائز کام ہم سے صرف اس لئے سرزد ہو رہے ہوتے ہیں کیونکہ ہمیں علم ہی نہیں ہوتا کہ یہ ناجائز ہیں۔ نہ ہم قانون کا اتنا علم رکھتے ہیں کہ اپنے حقوق ہی معلوم ہوں۔ اور نہ ہی صحت سے متعلق کوئی ایسی بنیادی معلومات رکھتے ہیں جن کی مدد سے صحت مند زندگی گزار سکیں۔ ان تینوں شعبوں میں ہم نے خود کو متعلقہ ماہرین کے رحم و کرم پر چھوڑ رکھا ہے۔ اور یقین جانئے ان میں سے بیشتر ہمارا صرف استحصال ہی کر رہے ہیں۔

ہم معمولی سے دینی مسئلے کے لئے مولوی صاحب کے پاس جاتے ہیں تو وہ ہمیں کسی ممکنہ “آفت سماوی” سے ڈراتے ہوئے فوراً صدقے کی تجویز دیدیتا ہے۔ اور یہ تجویز ہوتی بھی بہت پر اصرار ہے۔ جوں ہی ہم پوچھتے ہیں “صدقہ کسے دے سکتے ہیں ؟” تو کہتے ہیں “لاؤ میں ہی کسی مستحق کو دیدوں گا” وہ مستحق اکثر ان کی اہلیہ ہی ہوتی ہیں۔ صدقہ چھوڑیئے، زکوٰۃ تک اپنی اہلیہ کو پاس کردیتے ہیں۔ اب یہ تماشا اس لئے ہوتا ہے کہ عام آدمی یہ علم ہی نہیں رکھتا کہ اسلام میں مالدار شوہر کی مالداری سے بیوی مالدار نہیں ہوجاتی۔ اگر بیوی اپنی ذاتی ملکیت کے ذریعے صاحبہ نصاب نہیں تو وہ زکوٰۃ لے سکتی ہے۔ سو مولوی صاحب جب یہ کہتے ہیں کہ لاؤ میں کسی مستحق کو دیدوں گا، تو وہ مستحق بالکل جائز طور پر ان کی اہلیہ بھی ہوتی ہیں۔ یوں وہ ایک ہاتھ سے بیوی کو زکوٰۃ کی ملکیت منتقل کرکے دوسرے ہاتھ سے اپنی تجوری میں منتقل فرما دیتے ہیں۔ یہی صورتحال پولیس کے ہاتھوں ہمیں پیش آتی ہے۔ ذرا سا کوئی تنازعہ پیدا ہوا نہیں کہ پولیس اہلکار قانون کی ان دفعات سے بھی ڈراوے دینے لگتا ہے جو قانون کی کتابوں میں موجود بھی نہیں ہیں۔ آپ باہمی تنازعات بھی چھوڑ دیجئے۔ صرف سڑک کا معاملہ ہی دیکھ لیجئے۔ عیدی کے چکر میں پولیس سڑک پر گاڑی روک کر اس امید پر تلاشی لیتی ہے کہ کچھ نہ کچھ تو غیر قانونی نکل ہی آئے گا۔ اور جب ایسا نہ ہو تو کاغذات طلب کر لئے جاتے ہیں۔ کاغذات بھی ٹھیک نکل آئیں تو لائسنس کا مطالبہ ہوجاتا ہے۔ اب لائسنس ایسی چیز ہے جو اکثر لوگوں کے پاس نہیں ہوتا۔ چنانچہ اب ہوتا یہ ہے کہ جان چھڑانے کے لئے پولیس کی مٹھی گرم کردی جاتی ہے۔ یہ معاملہ اس لئے ہوا کہ عام شہری اتنی سی بات نہیں جانتا کہ لائسنس صرف ٹریفک وارڈن ہی طلب کرسکتا ہے۔ عام پولیس قانوناً لائسنس طلب ہی نہیں کرسکتی۔

یہی صورتحال صحت کے شعبے سے متعلق ہماری بنیادی معلومات کی ہے۔ چنانچہ جب ہم کسی سپیشلسٹ ڈاکٹرز کے پاس جاتے ہیں تو وہ اسی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے سب سے پہلے تو ہم پر کچھ گاڑھی میڈیکل اصطلاحات کی بمباری کردیتا ہے۔ وہ اصطلاحات اتنی گاڑھی ہوتی ہیں کہ ہماری پوری نفسیات ہی کچل ڈالتی ہیں۔ یوں ہم فوراً دو باتیں سوچتے ہیں۔ پہلی یہ کہ میں تو بچپن سے ڈاکٹرز کے پاس جا رہا ہوں لیکن یہ الفاظ میں نے پہلی بار سنے۔ لہٰذا پہلی بات تو یہ ہے کہ یہ ڈاکٹر بہت ہی قابل ہے۔ کیونکہ اس نے جو الفاظ استعمال کئے یہ تو میرے محلے والے ڈاکٹر سے میں نے کبھی نہیں سنے۔ دوسری بات یہ کہ مجھے کوئی ایسا پیچیدہ مرض لاحق ہوگیا ہے جس کا نام تک میں پہلی بار سن رہا ہوں۔ لہٰذا میں خطرے میں ہوں۔ اب اس ذہنی حالت کا فائدہ کسے ہوگا ؟ ظاہر ہے ڈاکٹر کو۔ چنانچہ یہی سب سوچ کر ڈپریشن کا مزید علاج کرانے سے قبل میں نے طے کیا کہ ڈپریشن سے متعلق بنیادی معلومات حاصل کروں گا تاکہ مزید ڈیڑھ سال بے مقصد ادویات نہ کھانی پڑیں۔

سوشل میڈیا کا دور ہے سو یوٹیوب پر مستند ماہرین کے لیکچرز تلاش کئے۔ اس تلاش کے دوران بہت کچھ ملا مگر ایک بہت ہی اہم لیکچر Dr Michael D. Yapko کا بھی ملا۔ یہ کلینکل سائیکالوجسٹ ہیں اور ان کی مہارت بالخصوص ڈپریشن کے حوالے سے ہی ہے۔ اس شعبے میں ان کی مہارت پچاس برس پر محیط ہے اور اس موضوع پر یہ کتب بھی لکھ چکے ہیں ۔ اسی طرح سی این این کی ایک کہنہ مشق خاتون اینکر کی تقریر بھی سنی جو ڈپریشن کا شکار رہ چکی تھیں اور اب صحت مند زندگی گزار رہی ہیں۔ اسی موضوع پر کچھ انٹرویوز بھی دیکھنے اور سننے کو ملے۔ اس ساری تحقیق کا خلاصہ یہ تھا کہ ڈپریشن کسی دماغی کیمکل کی کمی کا نتیجہ نہیں۔ یہ خالص نفسیاتی معاملہ ہے جو ایسے شخص کو بھی پیش آسکتا ہے جس کے سارے دماغی کیمکل پورے ہوں۔ اس حوالے سے خاص طور پر ڈاکٹر یاپکو کا لیکچر بہت ہی اہم تھا۔ انہوں نے باقاعدہ چیلنج دیتے ہوئے کہا کہ انہوں نے اپنی 50 برس کی عملی زندگی میں ڈپریشن کا ایک بھی کیس ایسا نہیں دیکھا جو ادویات سے ٹھیک ہوگیا ہو۔ آپ کوئی بھی دوا کھالیں۔ جب تک کھاتے رہیں گے پرسکون رہیں گے لیکن جوں ہی دوا چھوڑیں گے تین ہفتے بعد صورتحال وہی پرانی ہوگی۔ ان کا کہنا تھا کہ دوا سے ڈپریشن تب ٹھیک ہو جب ڈپریشن کی کسی دماغی خلل کا نتیجہ ہو۔ جب یہ ہے ہی مکمل طور پر نفسیاتی کیس، دماغ میں لگنے والی کوئی چوٹ یا پیدا ہونے والا کوئی مرض اس کا باعث ہی نہیں تو پھر کسی دوا کا اس سے کیا لینا دینا ؟ پھر انہوں نے خود ہی سوال کھڑا کرتے ہوئے پوچھا:

“تو پھر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ڈپریشن کس چیز سے شروع ہوتا ہے ؟”

یعنی وہ بنیادی سبب کیا ہے جس کی وجہ سے 2010 کے بعد سے اچانک پوری دنیا میں ڈپریشن ایک وباء کی شکل اختیار کر گیا ؟ اس سوال کا جواب دیتے ہوئے انہوں نے اپنی جیب سے سمارٹ فون نکال کر آڈیٹوریم میں بیٹھے لوگوں کے سامنے لہراتے ہوئے کہا:

“یہ ہے وہ سبب جس نے 2010 کے بعد ڈپریشن کو وباء کی شکل دے ڈالی ہے”

(جاری ہے)

Related Posts