انسان اپنی زندگی میں جو کام سب سے زیادہ کرتا ہے، وہ سیکھنا سکھانا ہے۔ یہ عمل اس کی سب سے بڑی سرگرمی اس لئے ہے کہ جب یہ دیکھتا ہے تب بھی یا کچھ نیا سیکھ جاتا ہے یا پچھلے سیکھے ہوئے کی تصدیق یا تردید ہوجاتی ہے۔ یہی صورتحال سننے کے معاملے میں بھی ہے۔ یوں اس کے عالم بیداری کی ہر سرگرمی سیکھنے سکھانے کا ہی باعث بنتی رہتی ہے۔ حتی کہ سیکھنے سکھانے کا یہ عمل لاشعوری طور پر بھی جاری رہتا ہے۔ انسانوں کے مابین آراء کا اختلاف بھی درحقیقت اپنی سیکھ کا دوسروں سے تبادلہ ہی ہوتا ہے۔ قدم قدم پر جب وہ کسی سے کوئی مشورہ طلب کرتا یا دیتا ہے تو یہ بھی ایک تعلیمی سرگرمی ہی ہوتی ہے۔ انسان کسی ایسے معاملے میں ہی مشورہ طلب کرتا ہے جہاں اس کی اپنی سیکھ اس کی اپنی نظر میں نامکمل ہونے کے سبب ناقابل اعتماد ہوتی ہے۔ سیکھتا انسان دو بڑے ذرائع سے ہے۔ ایک کتاب یعنی تعلیم اور دوسرا ذاتی عمل و مشاہدہ جسے تجربہ کہا جاتا ہے۔ پھر ان دونوں ذرائع میں دو بڑے فرق ہیں۔ تعلیم کے بغیر انسان بود و باش کرسکتا ہے۔ جبکہ تجربے کے غیر بالکل نہیں۔ ہم لاتعداد انسانوں کو دیکھتے ہیں کہ تعلیم بالکل نہیں رکھتے مگر پرآسائش زندگی جی رہے ہوتے ہیں۔ اس کے برخلاف اگر آپ کسی انسان کو بہت کم عمری میں جنگل میں تنہا چھوڑ دیں۔ اور جوانی میں اسے انسانی معاشرت میں لے آئیں تو اس کے لئے جینا ایک تشدد بن جائے گا۔ کیونکہ اسے معاشرتی زندگی کا کوئی تجربہ نہ ہوگا اور تجربہ انسانوں کو باہمی میل جول سے ہی حاصل ہوتا ہے۔ دوسرا فرق یہ ہے کہ انسان کتابی سیکھ بہت آسانی سے بھول جاتا ہے۔ ہم ایسے کئی انجینئرز یا ڈاکٹرز سے ملتے رہتے ہیں جن سے انجینئرنگ یا طب کے میدان میں مدد طلب کریں تو وہ یہ کہہ کر ہاتھ کھڑے کر لیتے ہیں کہ ان کی تعلیم ضرور انجینئرنگ یا میڈیکل کی ہے مگر وہ “پریکٹس” نہیں کرتے اور جو پڑھ رکھا ہے اسے بہت مدت ہوگئی ہے۔ لہٰذا بہتر یہی ہے کہ کسی ایسے انجینئر یا ڈاکٹر سے رجوع کرلیں جو اسی میدان میں سرگرمی رکھتا ہو۔ اس کے برخلاف تجربے سے سیکھی ہوئی ہر چیز انسان کو یاد رہتی ہے۔ بالخصوص اگر وہ تجربہ ٹھوکروں پر مشتمل ہو۔
رعایت اللہ فاروقی کے مزید کالم پڑھیں: