لندن: دنیا بھر میں تباہی مچا دینے والے کورونا وائرس کے باعث انٹرنیٹ کو بنیادی انسانی حقوق میں شامل کرنے کا مطالبہ زور پکڑ گیا ہے۔
تفصیلات کے مطابق دنیا کے 100 کروڑ سے زائد افراد انٹرنیٹ جیسی اہم سہولت سے 21ویں صدی میں بھی محروم نظر آتے ہیں جس نے کورونا وائرس اور لاک ڈاؤن کے دنوں میں عوام میں جینے کی امنگ پیدا کی تھی۔
انٹرنیٹ موجودہ دور میں کتنی بڑی ضرورت ہے، اس کا اندازہ پاکستان سمیت دنیا بھر کے غریب عوام کو اُس وقت ہوا جب انہیں گھر سے بیٹھ کر تعلیم حاصل کرنے اور کاروبار کرنے کی ہدایت کی گئی تاکہ وہ کورونا وائرس سے محفوظ رہ سکیں۔
اس حوالے سے حال ہی میں قابلِ خرید انٹرنیٹ کے اتحاد (الائنس فور افورڈ ایبل انٹرنیٹ) کی ایک رپورٹ شائع ہوئی جس کے مطابق انٹرنیٹ موجودہ دور میں آسائش کی بجائے ضرورت ہے، جسے بنیادی انسانی حقوق میں شامل کرنا وقت کا تقاضا ہے۔
رپورٹ میں 57 اوسط آمدنی والے اور پسماندہ ممالک کا جائزہ لیا گیا ہے جنہیں ای ڈی آئی یعنی انٹرنیٹ کے قابلِ خرید پیمانے پر پرکھا گیا۔براڈ بینڈ انٹرنیٹ میں ایشیاء پیسیفک کو تیزی سے ترقی کرنے والا خطہ قرار دیا گیا ہے۔
دوسری جانب افریقہ میں انٹرنیٹ کے حوالے سے خاطر خواہ ترقی نہ ہوسکی۔ آج بھی افریقہ میں ماہانہ انٹرنیٹ کا خرچ آمدنی کے 6 اعشاریہ 7 فیصد کے لگ بھگ ہے۔ دنیا کے 100 کروڑ انسان انٹرنیٹ کی سہولت تک رسائی نہیں رکھتے۔
مذکورہ رپورٹ میں اندازہ لگایا گیا ہےکہ غریب ممالک میں قابلِ خرید انٹرنیٹ تک رسائی کیلئے 428 ارب ڈالر کا انفراسٹرکچر درکار ہے جبکہ انٹرنیٹ کو بنیادی انسانی حقوق میں شامل کرنے کا مطالبہ زور پکڑتا جارہا ہے۔
یاد رہے کہ اِس سے قبل عوامی جمہوریہ چین میں دُنیا کا تیز رفتار ترین انٹرنیٹ عوام تک پہنچانے کیلئے تیاریاں ہوئیں اور 6 جی سٹیلائٹ خلاء میں روانہ کردی گئی۔
سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر رواں برس 10 نومبر کو اپنے پیغام میں امریکا میں موجود چینی سفارت خانے نے آگاہ کیا کہ چین نے واحد راکٹ کے ذریعے 13 سٹیلائٹس خلاء میں روانہ کی ہیں۔
مزید پڑھیں: دُنیا کا تیز رفتار ترین انٹرنیٹ لانے کی تیاریاں، 6 جی سٹیلائٹ روانہ