سابق پی ٹی آئی حکومت کے دور میں پاکستان کے سابق مشیرِ قومی سلامتی معید یوسف اور اس وقت کے وزیر اعظم عمران خان نے جب امریکا کو آنکھیں دکھانا شروع کیا تو ملک کی خارجہ پالیسی کسی الگ ہی راہ پر چلتی نظرآرہی تھی اور امید یہ تھی کہ ڈو مور کا مطالبہ اپنی موت آپ مر جائے گا۔
سب سے پہلے تو یہ سمجھنے کی کوشش کرنا ہوگی کہ یہ ڈو مور کا مطالبہ کیا ہے؟ تو آج سے 20 یا 22 سال قبل سابق صدر پرویز مشرف کے دور کو اٹھا کر دیکھیں جب پاکستان نے افغانستان کے خلاف امریکا کی جنگ کو دہشت گردی کے خلاف جنگ سمجھتے ہوئے اس میں حصہ ملانا شروع کیا۔
سابق وزیر اعظم عمران خان متعدد مواقع پر یہ کہہ چکے ہیں کہ پاکستان کو امریکا کی جنگ میں گھسنے کی ضرورت نہیں تھی۔ ہم نے ہزاروں جانوں کی قربانیاں دیں اور پھر بھی پاکستان کو اس کی قربانیوں کا کوئی صلہ نہیں ملا بلکہ ہمیشہ ڈو مور کا مطالبہ کیا گیا۔ یعنی کچھ اور کریں جس کا مطلب یہ لیا جاسکتا ہے کہ آپ نے اب تک جو بھی کیا، وہ ناکافی ہے۔
یہی بات اگر پاکستان کو دوستانہ انداز سے کہی جاتی تو اس کا مثبت تاثر بھی لیا جاسکتا تھا، مثلاً آپ دہشت گردوں کے خلاف کتنے ہی اقدامات کیوں نہ اٹھا لیں، جب تک دہشت گردی ختم نہیں ہوتی، ان اقدامات میں بہتری کی گنجائش تو باقی رہے گی، لیکن امریکا بہادر کی زبان اور لہجہ ہمیشہ سے موضوعِ بحث بنا رہا۔
دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان نے سالوں گزار دئیے۔ ٹی ٹی پی، بی ایل اے اور دیگر دہشت گرد تنظیموں کو پاک فوج نے مار بھگانے کی بھرپور کوشش اور بہت سے کامیاب آپریشنز بھی کیے جن میں ان گنت دہشت گردوں کو ہلاک کیا گیا اور بے شمار گرفتار ہو گئے لیکن دہشت گردی تاحال تھم نہیں سکی۔
یہاں یہ سوال کیا جاسکتا ہے کہ پاکستان میں دہشت گردی ختم کیوں نہیں ہوئی؟ تو مٹھی بھر دہشت گرد تو ضرور ختم کیے جاسکتے ہیں لیکن جب ایک پورے کا پورا ملک ہی دہشت گردوں کے نرغے میں ہو تو اسے آزاد کروانے سے بہتر یہ ہوتا ہے کہ حکومت ہی ان کے حوالے کردی جائے جو افغانستان میں ہوا۔
مسلسل 20 سال کی جنگ سے امریکا کے ہاتھ کچھ نہیں آیا اور وہ ناکام و نامراد ہو کر افغانستان سے واپس لوٹ گیا۔ افغانستان میں طالبان کی حکومت کا قیام ایک ایسا آنکھیں کھول دینے والا واقعہ تھا جسے عالمی برادری نے انتہائی تشویش زدہ نظروں سے دیکھا اور پھر پاکستان سے ڈو مور کا مطالبہ کیا جانے لگا۔
یہ تو ہوئی ایک سیدھے سادے ڈو مور کے مطالبے کی بات جو امریکا اور اس کے اتحادیوں نے پاکستانی حکمرانوں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کیا اور پاکستان سے اس کا جواب بھی سنا لیکن ڈو مور کا مطالبہ کچھ اور فورمز پر بھی پاکستان سے اب تک کیا جارہا ہے جن میں ایف اے ٹی ایف اور آئی ایم ایف شامل ہو گئے ہیں۔
ایف اے ٹی ایف نے سالہا سال تک پاکستان کو گرے لسٹ میں لٹکائے رکھا اور بار بار ڈو مور کا مطالبہ کیا جسے پورا کرنے پر ہی پاکستان کے گرے لسٹ سے نکلنے کے امکانات روشن ہوئے۔ اور پھر آئی ایم ایف نے قرض کی ادائیگی میں طویل تاخیر کی جس کی بڑی وجہ عمران خان حکومت کا آئی ایم ایف سے معاہدہ توڑنا تھا۔
آئی ایم ایف سے پاکستان کو 1 ارب 16 کروڑ ڈالرز تو مل گئے لیکن جمعہ کے روز میڈیا پر سامنے آنے والی خبروں کے مطابق آئی ایم ایف نے پاکستان کے ساتویں اور آٹھویں جائزے کی رپورٹ جاری کرتے ہوئے ڈو مور کا مطالبہ دوہرا دیا۔ ادارے کا کہنا تھا کہ پاکستان نے 3 کارکردگی اور 7 اسٹرکچرل شرائط پوری نہیں کیں۔
آخر میں سب سے اہم بات پر توجہ دینا ضروری ہے کہ ڈو مور اینڈ مور کے یہ براہِ راست اور بالواسطہ مطالبات کبھی ختم نہیں ہوں گے جب تک کہ پاکستان سودی نظام سے نجات حاصل کرکے اپنے قدموں پر کھڑا نہ ہوجائے جس کیلئے حکومتِ وقت کو دور رس اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے۔