شہباز گل کی رہائی اور سیلاب

مقبول خبریں

کالمز

Ceasefire or a Smokescreen? The US-Iran Next Dialogue of Disillusions
جنگ بندی یا دھوکہ؟ امریکا اور ایران کے درمیان فریب پر مبنی اگلا مکالمہ
Israel-Iran War and Supply Chain of World Economy
اسرائیل ایران جنگ اور عالمی معیشت کی سپلائی چین
zia-2-1-3
بارہ روزہ جنگ: ایران اور اسرائیل کے نقصانات کا جائزہ

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

پاکستان تحریکِ انصاف کے مرکزی رہنما، عمران خان کے سابق معاونِ خصوصی اور بنی گالہ کے چیف آف اسٹاف ڈاکٹر شہباز گل کو ان کی تقریر کے دوران دئیے گئے ریمارکس پر اگست کے ابتدائی عشرے میں ہی گرفتار کر لیا گیا جنہیں رہائی گزشتہ روز ملی۔

بغاوت پر اکسانے کے الزام میں قائم کردہ مقدمے کے متعلق شہباز گل کے وکیل کا کہنا تھا کہ سابق معاونِ خصوصی کی تقریر سے اتنا انتشار نہیں پھیلا جتنا کہ مدعی مقدمہ نے پھیلایا۔ تقریر کے کچھ حصے نکالے گئے اور کچھ کو جوڑ کر مقدمہ قائم کردیا گیا۔

بغاوت کے اس مقدمے میں شہباز گل کو کم وبیش 36 روز تک قید بھگتنی پڑی۔ عدالت نے جمعرات کو 5لاکھ کے مچلکوں کے عوض شہباز گل کو رہا تو کردیا تاہم ریمارکس بھی دئیے کہ شہباز گل کا بیان ہتک آمیز تھا۔ لوگوں کی عزتیں نہیں اچھالنی چاہئیں۔

مقدمے کی سماعت کے دوران عدالت نے متعدد سخت ریمارکس دئیے جس سے ثابت ہوتا ہے کہ عدلیہ سیاستدانوں کے روئیے اور بلا جواز بیانات سے خوش نہیں جبکہ حکومت کی جانب سے شہباز گل پر قائم کیا گیا بغاوت پر اکسانے کا مقدمہ زیادہ تر بلا جواز تھا۔

خاص طور پر بغاوت کی بات اسلام آباد ہائیکورٹ نے قبول نہیں کی۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دئیے کہ بغاوت پر دلائل نہ دیں، اگر ہم سوشل میڈیا پر جائیں تو آدھا پاکستان اندر ہوگا۔ اسے چھوڑ کر باقی دفعات پر توجہ مرکوز کریں۔

اگر ہم اس تمام تر مقدمے، شہباز گل کی گرفتاری، اسلام آباد پولیس کے مبینہ تشدد اور زیرِ حراست شہباز گل کے بیانات کا جائزہ لیں تو ایک بات واضح ہوتی ہے کہ ریاستی ادارے سیاستدانوں کی باہمی رسہ کشی میں دست و گریباں نظر آئے۔

ایک طرف عدلیہ کی کوشش تھی کہ حکومت بھی ناراض نہ ہو اور شہباز گل کو بھی کم سے کم قید کا سامنا کرنا پڑے تو دوسری جانب شہباز گل کی گرفتاری کیلئے اسلام آباد پولیس اور پنجاب پولیس میں رسہ کشی بھی نظر آئی۔

تکلیف دہ حقیقت یہ ہے کہ ملک بھر میں سیلاب کے باعث ہونے والی تباہ کاریاں دل دہلا دینے والی ہیں۔ گزشتہ روز تک بارشوں اور سیلاب کے دوران 1 ہزار 486 افراد جاں بحق جبکہ 12 ہزار 749 زخمی ہوئے اور سیلاب زدگان کا کوئی پرسانِ حال نہیں۔

سیلاب کے باعث سب سے زیادہ نقصان سندھ میں ہوا جہاں 638 افراد جاں بحق ہوئے، خیبر پختونخوا میں 305، بلوچستان میں 281 جبکہ پنجاب میں 191 افراد انتقال کر گئے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ سیاسی قیادت بے بنیاد مقدمات کی رسہ کشی سے باہر نکلے اور سیلاب زدگان کی بحالی پر توجہ دے۔

 

Related Posts