اکنامک افیئرز ڈویژن کی ایک رپورٹ کے مطابق رواں سال کے ابتدائی پانچ ماہ میں وفاق نے مختلف ذرائع سے چار ارب ڈالر قرض لیا، جبکہ گزشتہ سال کے اسی عرصے میں پانچ ارب ڈالر قرض لیا گیا تھا۔ اسی طرح نومبر میں چار ارب ڈالر قرض لیا گیا، جبکہ گزشتہ سال نومبر میں اس سے دگنا آٹھ ارب ڈالر قرض لیا گیا تھا۔ اس رپورٹ سے ظاہر ہوتا ہے کہ موجودہ نگران حکومت اخراجات میں کمی کے ذریعے ملکی قرضوں میں اربوں ڈالر کی کمی لانے میں کامیاب ہوئی ہے۔
اس رپورٹ کے بین السطور سے بہت کچھ واضح ہوتا ہے۔ ملک میں اس وقت نگران حکومت قائم ہے، یہ حکومت غیر نمائندہ اور غیر منتخب ہے، اسے عوام نے منتخب نہیں کیا، اگرچہ اس حکومت میں سیاستدان بھی شامل ہیں، جو عوام میں اپنی سیاسی جڑیں رکھتے ہیں، تاہم ان کا حکومت کیلئے انتخاب عوام کی طرف سے نہیں ہے۔ دوسری طرف گزشتہ سال موجودہ نگران حکومت موجود نہیں تھی، ملک کی باگ عوام کے منتخب نمائندوں کے ہاتھ میں تھی۔ اب آئیے اس رپورٹ کی طرف، اس رپورٹ میں منتخب اور غیر منتخب دونوں حکومتوں کے ادوار کا فرق دو جمع دو چار کی طرح واضح ہے۔ عوامی منتخب نمائندوں کے دور میں قرض کس قدر بڑھا ہے اور غیر نمائندہ حکومت کے دور میں ان میں کتنی کمی آئی ہے، اس رپورٹ کے آئینے میں یہ فرق صاف دیکھا جاسکتا ہے اور یہ کارکردگی کا وہ خلا ہے، جس نے پاکستان میں جمہوریت پر عوامی اعتماد کو مجروح کرنے میں بنیادی کردار ادا کیا ہے۔
اگر پوچھا جائے کہ پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ کیا ہے تو یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ قرض گیری پاکستان کا ایک ایسا مسئلہ ہے، جو تمام مسائل کی جڑ ہے۔ یہ کس قدر افسوس کی بات ہے کہ اپنی مجموعی قومی تاریخ میں بطور قوم ہم زیادہ تر مقروض ہی رہے ہیں، جس کی بنا پر جہاں دنیا میں ہماری قومی شناخت ایک مقروض اور محتاج قوم کی بن چکی ہے، وہاں مہنگے سودی قرضوں کی لعنت میں گرفتار ہوکر ہم بدترین معاشی مسائل سے بھی دوچار ہیں۔ قرض گیری کی پالیسی اب ہماری قومی ذہنیت بن چکی ہے، جس نے ملک کی انتظامی مشینری، مقتدر اشرافیہ اور حکمرانوں کو ایسی لت لگا دی ہے کہ اپنے وسائل سے ملک چلانے اور ملک میں نئے پیداواری ذرائع پر کام کرنے کے بجائے ہم بیٹھے بٹھائے قرضوں کے ذریعے کام چلانے کی بری عادت میں مبتلا ہوگئے ہیں۔
صورتحال یہ ہے کہ ہم اپنے مسائل حل کرنے کیلئے وسائل کی آبیاری کے بجائے بھاری سود پر قرضے لیتے ہیں اور یہ قرض پرانے مسائل میں کچھ افاقہ کرنے کے ساتھ ملک و قوم کو نئے سنگین مسائل میں الجھا دیتے ہیں اور حکمران ان نئے مسائل سے گلو خلاصی کیلئے پھر سے کشکول اٹھا کر قرضوں کے حصول کیلئے دنیا بھر میں مارے مارے پھرتے ہیں۔ اس طرح دائرے کے اس سفر نے ملک کو بری طرح مسائل و مشکلات کے بھنور میں باندھ کر رکھ دیا ہے۔
کرپشن، مالی بد دیانتی، اقربا پروری، اسراف اور شاہ خرچی ملک کے انتظام و انصرام کی وہ بنیادی کمزوریاں ہیں جو ایک طرف ملکی معیشت اور قومی خزانے کو دیمک کی طرح چاٹ جاتی ہیں، تو دوسری طرف ان کا نتیجہ قرضوں کے حصول اور اثاثوں کی نیلامی اور فروخت سے زر مبادلہ حاصل کرنے کی روش کی صورت میں نکلتا ہے۔ یہ پالیسی ریاست کی جڑوں میں بیٹھ چکی ہے، چنانچہ حکومت کسی بھی پارٹی یا سیاسی رہنما کی آئے، قرض گیری کی پالیسی کو عوامی بیانات میں برا بھلا کہنے کے باوجود اسے بدلنے اور قرضوں کے حصول میں کمی لانے کی طرف کوئی نہیں جاتا۔
عالم یہ ہے کہ انتخابی مہم اور پبلک بیانات میں جو سیاستدان اور رہنما جس قدر زیادہ بڑھ چڑھ کر ملکی مسائل کا اصل سبب قرضوں کو گردانتا ہے، بدقسمتی سے اقتدار میں آکر وہی ملک کو سب سے زیادہ قرضوں کی بیڑیوں میں جکڑ دیتا ہے۔ برسوں سے ”وہی رفتار بے ڈھنگی جو پہلے تھی، سو اب بھی ہے۔۔۔” جو ملکی معیشت کے ساتھ ساتھ جمہوریت کا بھی خانہ خراب کرتی آ رہی ہے۔
اس میں دوسری رائے نہیں کہ قرضوں سے کسی قوم کی قسمت چمک سکتی ہے اور نہ ہی کسی ملک کی معیشت اپنے پیروں پر کھڑی ہوسکتی ہے۔ ہر سیاسی رہنما بھی یہی چاہتا ہے کہ قرضوں کے بغیر ملک چلایا جائے، مگر مسئلہ یہ ہے کہ اس میں لگتی ہے محنت زیادہ۔ اور محنت کرنے کو شاید بحیثیت قوم اپنے سیاستدانوں سمیت ہم سبھی شاید ایک قدرِ زائد سمجھتے ہیں۔۔۔۔
اس حقیقت سے مجالِ انکار نہیں کہ قرض گیری کی پالیسی سے چھٹکارا اپنے وسائل کی کھوج کرید اور پیداوار کے ذرائع بڑھانے کی جانگسل محنت، مسلسل منصوبہ بندی، خلوص اور کوہ کن کی ہمت مانگتی ہے، جس کیلئے دستیاب سیاسی لاٹ میں کوئی بھی آمادہ و تیار نہیں ہے، ہر کوئی وقتی اور نمائشی اقدامات کے ذریعے اپنی سیاسی دکان چمکانے کی پالیسی پر کاربند رہتا ہے، جس کا نتیجہ ملکی کی معاشی بدحالی کی صورت میں ہر شخص بھگت رہا ہے۔
زیر تبصرہ رپورٹ میں واضح ہے کہ ایک حکومت کے دور میں شاہ خرچیوں اور غیر پیداواری اخراجات پر کنٹرول رکھا گیا تو قرضوں میں نمایاں کمی ریکارڈ کی گئی، جبکہ دوسرے دور میں قرضوں کا غیر معمولی زیادہ حجم بتاتا ہے کہ زیادہ اخراجات ملک و قوم پر کس قدر بھاری پڑے ہیں۔
اخرجات کے ساتھ ساتھ بد قسمتی سے یہ فرق منتخب اور غیر منتخب حکومتوں میں گورننس میں بھی سامنا آچکا ہے۔ پی ڈی ایم پلس کی حکومت میں بد انتظامی اور اسمگلنگ کے نتیجے میں ڈالر مسلسل بے قابو ہو رہا تھا، نشاندہی کے باوجود شاید سیاسی مجبوریوں کے باعث منتخب حکومت کارروائی کرنے سے قاصر تھی، جبکہ نگران حکومت نے بے لاگ کارروائیاں کیں تو آج ڈالر بھی کسی حد تک قابو میں ہے۔
ملک الیکشن کی طرف جا رہا ہے، ضرورت اس امر کی ہے سیاسی رہنما اپنی پالیسیوں کی خامیوں کا ابھی سے جائزہ لیں اور تہیہ کریں کہ اقتدار میں آنے کے بعد اس فرق کو سامنے رکھتے ہوئے اپنی پالیسیوں میں تبدیلی لائیں گے، ورنہ یہی وقت گزاری کی پالیسی جاری رہی تو معیشت کے ساتھ جمہوریت کی بھی ”انا للہ” ہوجائے گی۔