معاشی المیہ

مقبول خبریں

کالمز

"Conspiracies of the Elites Exposed!"
سرمایہ داروں کی خوشحالی، عوام کی غربت، پاکستان کی معیشت کا کھلا تضاد
Munir-Ahmed-OPED-750x750-1
پرتگال اور پاکستان کے درمیان 75 سالہ خوشگوار سفارتی تعلقات
Munir-Ahmed-OPED-750x750-1
دھوکا دہی کے بدلے امن انعام؟

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

ملک کی معیشت بالعموم اور درآمد کنندگان خاص طور پر انٹربینک مارکیٹ پر بڑھتی ہوئی  پابندیوں اور شرح مبادلہ کے کنٹرول سے منفی طور پر متاثر ہوئے ہیں۔ پاکستانی روپے نے گزشتہ روز ڈالر کے مقابلے میں اپنی قدر کا 9.6 فیصد کھو دیا، جو 20 سال سے زائد عرصے میں ایک دن میں سب سے زیادہ گراوٹ تھی۔ پاکستانی روپیہ گزشتہ دو سیشنز (جمعرات اور جمعہ) کے دوران گرین بیک کے مقابلے میں اپنی قدر کا 12.1 فیصد کھو چکا ہے۔
حالیہ برسوں میں ملک کو جن معاشی مسائل کا سامنا کرنا پڑا ہے، انہیں قیمتوں کو برقرار رکھنے کے ساتھ حل کیا جا سکتا ہے۔ جناب اسحاق ڈار کو واپس لانے کے پیچھے ایک فکسڈ ایکسچینج ریٹ کا جنون تھا، یہ باور کیا گیا تھا کہ ایکس چینج ریٹ فکس کرنے سے ہی ڈالر کو قابو کرنے کی سبیل نکالی جا سکتی ہے، مگر ایسا نہ ہوسکا۔ کیونکہ نام نہاد مالیاتی جادوگر نے ایک ایسے وقت میں پاکستانی روپے کی قدر میں امریکی ڈالر کے مقابلے میں 15 فیصد سے زیادہ اضافے کا وعدہ کیا تھا جب ملک کے زرمبادلہ کے ذخائر تیزی سے کم ہو رہے تھے اور یہاں تک کہ انتہائی بنیادی ضروریات کو بھی درآمد کرنا بھی سخت مشکل ہو رہا تھا۔ جب زر مبادلہ کے ذخائر کا یہ عالم ہو تو ایسے میں ڈالر کو کسی مصنوعی سہارے سے کنٹرول کرنے کا جو نقصان ہو سکتا تھا، اسی کو آج ساری قوم بھگت رہی ہے۔

اس طرح کا حربہ چند سال پہلے اس وقت ایک بار کسی حد تک کارگر ثابت ہوا تھا جب ڈار نے ڈالر ادھار لیے، جبکہ اس وقت ترقی یافتہ معیشتوں میں شرح سود صفر کے قریب تھی۔
بد قسمتی سے ہمارے پالیسی سازوں نے اپنی ناکام حکمت عملی  پر کام جاری رکھا اور باقی دنیا میں جو کچھ ہو رہا تھا اس سے غافل رہے، نتیجہ یہ نکلا کہ آج ملک تباہی کے دہانے پہنچ چکا ہے اور آبادی کی عظیم اکثریت کی بچت اور قوت خرید بری طرح تباہی سے دوچار ہے۔ یہ معاشی سبوتاژ کا بے مثال نمونہ ہے۔ اندازہ لگائیے کہ مرکزی بینک نے امریکی ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر میں اضافے کو یقینی بنانے کے لیے مارکیٹ میں پیسہ ڈالنا شروع کر دیا، اس طرح زر مبادلہ کے ذخائر ختم ہوتے چلے گئے۔
طے شدہ شرح مبادلہ کی پالیسی جو چند مہینوں سے زیادہ جاری رہی، نے ڈالر کی اصل قدر اور انٹربینک قدر کے درمیان ایک بہت بڑا فرق پیدا کر دیا۔ نتیجتاً انٹربینک اور اوپن مارکیٹ ریٹ کے درمیان بہت زیادہ فرق کی وجہ سے ترسیلات زر کے بہاؤ کو غیر سرکاری ذرائع کی طرف موڑنے پر مجبور کیا گیا، جس سے غیر ملکی کرنسی کی آمد میں مزید کمی آئی اور اضافی لیکویڈیٹی مسائل میں اضافہ ہوا۔
آنے والے دنوں میں بڑھتی ہوئی بدترین مہنگائی کی وجہ سے آئندہ چند مہینوں میں افراط زر 30 فیصد سے زیادہ ہونے کی توقع ہے، جوعام انتخابات کے وقت عروج پر پہنچ سکتی ہے۔ کسی بھی ڈیٹا یا کامیاب عالمی معاشی طور طریقوں کے علم کے بغیر فیصلے کرنے کا نتیجہ ہمیشہ الم ناک ہوتا ہے، بد قسمتی سے پاکستان کے معاشی افلاطونوں نے اپنی کم علمی سے کیے گئے فیصلوں کے ذریعے ملک کو اسی المیے سے آج دوچار کر رکھا ہے۔

Related Posts