دانا الھاجری: عزم و ہمت کی علامت سعودی معذور خاتون

مقبول خبریں

کالمز

zia-2
آٹا 5560 روپے کا ایک کلو!
zia
برسوں ایران میں رہنے والی اسرائیلی جاسوس خاتون کی کہانی
Philippines, Pakistan, National Day, Dr. Emmanuel Fernandez, bilateral ties, diplomacy, climate change, development, peace, trade, education, cultural exchange, sustainable future, regional cooperation, Mabuhay, Filipino community, Islamabad celebration, soft power, South-South partnerships, innovation, resilience, post-colonial nations, mutual respect, global south
مشترکہ جدوجہد اور روشن مستقبل کی ایک خوبصورت تقریب

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

اپنے چھوٹے قد اور معاشرے میں درپیش چیلنجوں کے باوجود سعودی خاتون دانا الھاجری نے ناممکن سمجھے جانے والے چیلنج کو نہ صرف قبول کیا بلکہ اس میں کامیابی حاصل کی۔ مسابقتی مصنوعات کی ڈیزائننگ میں فرسٹ کلاس آنرز کے ساتھ بیچلر کی ڈگری حاصل کی۔ دانا الھاجری جدت کے ذریعہ خدمات انجام دے رہی اور ڈیزائن میں جدید تکنیکی پیشرفت سے باخبر رہتی ہیں اور معیشت اور معاشرے میں اپنا حصہ ڈال رہی ہیں۔

العربیہ ڈاٹ نیٹ کے ساتھ ایک انٹرویو میں الھاجری نے مواصلاتی ویب سائٹس کے علمبرداروں کی جانب سے سماجی رابطوں پر خوشی کا اظہار کیا۔

انٹرویو میں دانا نے اپنے چھوٹے قد پر بھی تبصرہ کیا اور کہا کہ چھوٹا قد ہی وہ فرق ہے جو مجھے دیگر طالبات کے درمیان چیلنجز اور مقابلے کے میدان میں ممتاز کر دیتا ہے۔ چھوٹا قد ہر مرحلے پر خود کو ثابت کرنے کی اہمیت کا احساس دلاتا ہے یہاں تک میں اپنی خواہش کردہ ہدف تک پہنچ جاتی ہوں۔ یونیورسٹی کی تعلیم سے لیکر حالیہ کامیابیوں تک خود اعتمادی نے ہی مجھے کامیابیاں دلائی ہیں۔

انہوں نے کہا لوگ میرے بلند مرتبے اور کامیابی کو دیکھتے ہوئے میرے چھوٹے قد کو بھی دیکھتے ہیں، اس سے مجھ پر کوئی اثر نہیں پڑتا بلکہ کامیابی کیلئے میری ضد میں اضافہ ہوجاتا ہے۔ میں زندگی کے تمام مراحل میں اللہ پر ہی سب سے زیاہ بھروسہ کرتی ہوں۔ پھر میرا خاندان میرا معاون ہے۔ میں ہمیشہ اپنے آپ سے کہتی ہوں خوذ سے محبت کو بڑھا چڑھا کر پیش کرو کیونکہ خوذ سے محبت ناقابل شکست ہوتی ہے۔

دانا الھاجری نے کہا میرے سامنے کوئی رکاوٹ نہیں تھی بلکہ چیلنجز تھے جن کا میں نے صبر کے ساتھ سامنا کرنے کا فیصلہ کیا، سب سے اہم چیلنجوں میں سے ایک اس کے چھوٹے قد کے بارے میں معاشرے کا نظریہ تھا۔

انہوں نے اپنی ماں اور بہنوں کا شکریہ ادا کرتے ہوئے اپنی تقریر کا اختتام کیا اور اپنی والدہ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا ماں اس جدوجہد اور حوصلے کے لیے بچپن سے میرے شانہ بشانہ اور ساتھ کھڑی تھیں۔ تم عظیم ہو میری ماں، اور میں اس کے لیے اللہ کا شکر ادا کرتی ہوں۔

Related Posts