مجرمانہ اذیت روکنا ضروری ہے

مقبول خبریں

کالمز

Munir-Ahmed-OPED-750x750-1
پرتگال اور پاکستان کے درمیان 75 سالہ خوشگوار سفارتی تعلقات
Munir-Ahmed-OPED-750x750-1
دھوکا دہی کے بدلے امن انعام؟
Ceasefire or a Smokescreen? The US-Iran Next Dialogue of Disillusions
جنگ بندی یا دھوکہ؟ امریکا اور ایران کے درمیان فریب پر مبنی اگلا مکالمہ

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

پاکستان کے ایوانِ بالا کے اجلاس کے دوران زیرِ حراست ملزم پر تشدد کیلئے قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکاروں کو 10 سال جبکہ ہلاکت پر عمر قید کی سزا کا بل منظورکر لیا گیا ہے۔ زیرِ حراست تشدد اور ہلاکتیں روکنے کیلئے بل کی منظوری دی گئی۔ چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین سینیٹ کے انتخابات کا طریقۂ کار بدلنے کیلئے قانونی ترامیم بھی منظور کی گئیں۔

دورانِ حراست تشدد روکنے اور ہلاکت پر کارروائی کا بل سینیٹر شیری رحمان کی طرف سے پیش کیا گیا جس کی حمایت وفاقی وزیرِ قانون شیریں مزاری نے کی۔ بل کے مطابق سرکاری ملازمین جو زیرِ حراست شہری پر تشدد کرے اسے 10 سال تک قید دی جاسکے گی۔

سرکاری ملازمین کو تشدد پر 10 سال قید کے علاوہ 20 لاکھ تک جرمانہ کیا جاسکتا ہے جبکہ اگر تشدد روکنے پر مامور سرکاری ملازم جان بوجھ کر غفلت برتے یا روک تھام میں ناکام رہے تو اسے 5 سال قید کے ساتھ ساتھ 1لاکھ تک جرمانہ ادا کرنا ہوگا۔

اس بل کا مقصد صنف ، مذہب ، مالی حیثیت یا صحت کی صورتحال سے قطع نظر افراد کیلئے یکساں نظام انصاف کا قیام ہے،اس سے قبل اقوام متحدہ نے تشدد کے شکار متاثرین کی حمایت میں عالمی دن منایا تاکہ لوگوں کو یہ یاد دلایاجاسکے کہ انسانی اذیت ناقابل قبول اور جرم ہےتاہم اس کے باوجود پاکستان میں اس قسم کی خلاف ورزیوں کا رواج عام ہے جس میں اکثر پولیس اور قانون نافذ کرنے والے ملوث پائے جاتے ہیں اس لئے مجرمانہ اذیت کو ختم کرنا وقت کی ضرورت تھی۔

پاکستان پینل کوڈ میں کچھ قسم کی اذیتوں کے لئے تعزیرات کی دفعات موجود ہیں لیکن وہ یا تو مبہم ہیں یا مجرموں کے لئے ناکافی ہیں۔

اب یہ قومی اسمبلی کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ اس بل کو منظور کرے تاکہ یہ قانون بن جائے اور اس پر عمل درآمد کو یقینی بنایاجاسکے۔ پاکستان اذیت کے خلاف بین الاقوامی کنونشنز پردستخط کرنے والا ہے اور اب ریاست کی ذمہ داری ہے کہ پرتشدد کارروائیوں کو روکنے اور سزا دینے کے اقدامات اپنائے اور تشدد کا نشانہ بننے والوں کو مناسب تدارک بھی فراہم کرے۔

ملک میں عدالتی نظام میں خامیوں کی وجہ سے جھوٹی شہادتوں کے باعث اکثر مجرمانہ اذیت کے مجرم سزاء سے بچ جاتے ہیں اورتشدد کو جرم قرار دینے میں ناکامی نے بچوں ، خواتین اور پسماندہ پس منظر سے تعلق رکھنے والے افراد سمیت کمزور گروہوں کی جانیں اور آزادیاں خطرے میں ڈال رکھی ہیں اور اس تمام تر صورتحال کی وجہ سے پاکستان کوپوری دنیا میں شدید سبکی کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور پاکستان کے منفی تشخص کی وجہ سے جی ایس پی پلس حیثیت بھی خطرے سے دوچار ہے۔

ریاست کا فرض ہے کہ وہ شہریوں کی جان ومال کاتحفظ کرے،حکومت کو ان قوانین کے بارے میں آگاہی پھیلانی چاہئے اور تشدد کا نشانہ بننے والے افراد کو انصاف فراہم کرناچاہئے اس کے علاوہ مجرموں  کو قانون کے مطابق سزاء بھی دلوائے تاکہ ملک میں مجرمانہ اذیت کا سلسلہ روکا جاسکے۔

Related Posts