اسلام آباد: چیف جسٹس پاکستان آصف سعید کھوسہ نے قبائلی علاقوں میں حراستی مرکز سےمتعلق کیس کی سماعت کے دوران ریمارکس دیے کہ عدالت کے سامنے سوال صرف حراستی مراکز کی قانونی حیثیت کا ہے، ایک طرف شہری کے وقار دوسری طرف ریاست کی بقاء کا سوال ہے۔
سپریم کور ٹ میں میں چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں 5 رکنی لارجر بینچ نے وفاق کے زیر انتظام سابق قبائلی علاقے (فاٹا) اور صوبوں کے زیر انتظام قبائلی علاقے (پاٹا) ایکٹ اور ایکشن ان ایڈ آف سول پاور آرڈیننس سے متعلق کیس کی سماعت کی۔
دوران سماعت اٹارنی جنرل انور منصور خان نے کہا کہ حراستی مراکز پر عدالت کو ویڈیو دکھانا چاہتا ہوں، فاٹا پاٹا میں دہشتگرد، کالعدم تنظیمیں اور غیر ریاستی عناصر موجود رہے، حراستی مراکز سمیت دیگر نکات پر نیا قانون بنایا جا رہا ہے جو تین سے چار ماہ میں نافذ ہو جائے گا۔
جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ آپ چاہتے ہیں عدالت چار ماہ آئین معطل کر دے؟ کیا آپ دکھانا چاہتے ہیں زیرحراست لوگ بہت خطرناک ہیں؟ ملک 2 دہائیوں سے دہشت گردی کا شکار ہے، عدالت کے سامنے سوال صرف حراستی مراکز کی قانونی حیثیت کا ہے۔
اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ عدالت سے صرف نئے قانون کی نفاذ تک کی مہلت مانگ رہا ہوں، 21 ویں ترمیم کے بعد اس حوالے سے کوئی قانون سازی نہیں ہوئی، پارلیمنٹ نے 21 ویں ترمیم جلدی بازی میں منظور کی، فاٹا اور پاٹا میں دہشت گرد، کالعدم تنظیمیں اور غیر ریاستی عناصر موجود رہے۔
یہ بھی پڑھیں: تحریکِ انصاف حکومت کے لیے مشکلات پیدا کرنے والا فارن فنڈنگ کیس کیا ہے؟