عدالت کے سامنے سوال حراستی مراکز کی قانونی حیثیت کا ہے، چیف جسٹس

مقبول خبریں

کالمز

Philippines, Pakistan, National Day, Dr. Emmanuel Fernandez, bilateral ties, diplomacy, climate change, development, peace, trade, education, cultural exchange, sustainable future, regional cooperation, Mabuhay, Filipino community, Islamabad celebration, soft power, South-South partnerships, innovation, resilience, post-colonial nations, mutual respect, global south
مشترکہ جدوجہد اور روشن مستقبل کی ایک خوبصورت تقریب
Munir-Ahmed-OPED-768x768-1-750x750
روسی کے قومی دن کی خوبصورت تقریب
Philippines, Pakistan, National Day, Dr. Emmanuel Fernandez, bilateral ties, diplomacy, climate change, development, peace, trade, education, cultural exchange, sustainable future, regional cooperation, Mabuhay, Filipino community, Islamabad celebration, soft power, South-South partnerships, innovation, resilience, post-colonial nations, mutual respect, global south
اسرائیل امریکا گٹھ جوڑ: ریاستی دہشت گردی کا عالمی ایجنڈا

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

عدالت کے سامنے سوال حراستی مراکز کی قانونی حیثیت کا ہے، چیف جسٹس

اسلام آباد: چیف جسٹس پاکستان آصف سعید کھوسہ نے قبائلی علاقوں میں حراستی مرکز سےمتعلق کیس کی سماعت کے دوران ریمارکس دیے کہ عدالت کے سامنے سوال صرف حراستی مراکز کی قانونی حیثیت کا ہے، ایک طرف شہری کے وقار دوسری طرف ریاست کی بقاء کا سوال ہے۔

سپریم کور ٹ میں میں چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں 5 رکنی لارجر بینچ نے وفاق کے زیر انتظام سابق قبائلی علاقے (فاٹا) اور صوبوں کے زیر انتظام قبائلی علاقے (پاٹا) ایکٹ اور ایکشن ان ایڈ آف سول پاور آرڈیننس سے متعلق کیس کی سماعت کی۔

دوران سماعت اٹارنی جنرل انور منصور خان نے کہا کہ حراستی مراکز پر عدالت کو ویڈیو دکھانا چاہتا ہوں، فاٹا پاٹا میں دہشتگرد، کالعدم تنظیمیں اور غیر ریاستی عناصر موجود رہے، حراستی مراکز سمیت دیگر نکات پر نیا قانون بنایا جا رہا ہے جو تین سے چار ماہ میں نافذ ہو جائے گا۔

جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ آپ چاہتے ہیں عدالت چار ماہ آئین معطل کر دے؟ کیا آپ دکھانا چاہتے ہیں زیرحراست لوگ بہت خطرناک ہیں؟ ملک 2 دہائیوں سے دہشت گردی کا شکار ہے، عدالت کے سامنے سوال صرف حراستی مراکز کی قانونی حیثیت کا ہے۔

اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ عدالت سے صرف نئے قانون کی نفاذ تک کی مہلت مانگ رہا ہوں، 21 ویں ترمیم کے بعد اس حوالے سے کوئی قانون سازی نہیں ہوئی، پارلیمنٹ نے 21 ویں ترمیم جلدی بازی میں منظور کی، فاٹا اور پاٹا میں دہشت گرد، کالعدم تنظیمیں اور غیر ریاستی عناصر موجود رہے۔

یہ بھی پڑھیں: تحریکِ انصاف حکومت کے لیے مشکلات پیدا کرنے والا فارن فنڈنگ کیس کیا ہے؟

جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ کیا یہ وہی ویڈیو ہے جو 2015 میں بھی عدالت کو دکھائی گئی تھی؟ جس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ جو ویڈیو دکھانا چاہتا ہوں وہ حراستی مراکز کی ہے۔

جسٹس گلزار احمد نے استفسار کیا کہ کیا کالعدم تنظیموں کے ساتھ حراستی مراکز بھی موجود تھے ؟ کیا 2008 سے آج تک حراستی مراکز کی قانونی حیثیت چیلنج ہوئی؟اٹارنی جنرل نے کہا کہ حراستی مراکز کی قانونی حیثیت سے متعلق یہ پہلا کیس ہے، حراستی مراکز سمیت دیگر نکات پر نیا قانون بنایا جا رہا ہے اور 3 سے 4 ماہ میں نیا قانون بن کر نافذ ہوجائے گا۔

چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے استفسار کیا کہ 25 ویں ترمیم میں پہلے سے رائج قوانین کو تحفظ دینا ضروری تھا اس پر اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ دہشت گردی کے وجہ سے صوبے کے عوام متاثر ہو رہے تھے، عوام کے تحفظ اور امن و امان کی بحالی کیلئے فوج طلب کی گئی تھی۔

جسٹس مشیر عالم نے استفسار کیا کہ امن و امان کی بحالی کے لیے 1960 کا قانون موجود ہے، اس کا استعمال کیوں نہیں کیا گیا؟جسٹس گلزار احمد نے استفسار کیا کہ کیا وفاق صوبے کے لیے قانون سازی کر سکتا ہے؟جس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ اِنکم ٹیکس سمیت کئی وفاقی قوانین صوبوں میں رائج ہیں۔

جسٹس فائز عیسیٰ نے کہا کہ صدر نے قانون فاٹا میں رائج کیا تھا جو اب ختم ہوچکا، فاٹا ختم ہو چکا تو اس میں رائج قانون کیسے برقرار ہے؟۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ فاٹا میں رائج قانون اب صوبائی قوانین بن چکے، جو نیا قانون ڈرافٹ کر رہا ہوں اس میں سب کچھ شامل کیا گیا ہے۔

جسٹس فائز عیسیٰ نے کہا کہ اٹارنی جنرل کا کام قانون بنانا کب سے ہوگیا؟ ، قانون بنانے کیلئے وزارت قانون موجود ہے، ان کاکہناتھا کہ قانون جب بن کر عدالت کے سامنے آئے گا تب دیکھیں گے۔

جسٹس عمر عطا بندیال نے استفسار کیا کہ حراستی مراکز میں کتنے لوگ زیر حراست ہیں؟ جس پر اٹارنی جنرل نے بتایا کہ حراستی مراکز میں اس وقت ایک ہزار کے قریب لوگ ہیں، کئی افراد آبادکاری اور ذہنی بحالی کے بعد رہا ہو چکے اور کئی کو جرم ثابت نہ ہونے پر بھی رہا کیا گیا۔

چیف جسٹس نے کہا کہ حراستی مراکز میں کسی کو تین ماہ رک رکھا جا سکتا ہے۔ اس پر اٹارنی جنرل نے بتایا کہ ملک کیخلاف سرگرمیوں پر غیر معینہ مدت کیلئے حراست میں رکھا جا سکتا ہے،اس پر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے کہ اس طرح تو کسی کوبھی ملک مخالف سرگرمیوں کا الزام لگا کر غیر معینہ مدت تک حراست میں رکھا جائے گا۔

جسٹس فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے کہ نئے قانون میں کسی کو حراست میں رکھنے پر نظرثانی کا نکتہ بھی نکال دیا گیا ہے، 2011 کے قانون میں سقم حراست پر نظرثانی نہ ہونا ہے، ایک طرف شہری کے وقار دوسری طرف ریاست کی بقا کا سوال ہے، بعدازاں عدالت نے فاٹا، پاٹا ایکٹ اور ایکشن ان ایڈ آف سول پاور آرڈیننس سے متعلق کیس کی سماعت منگل تک ملتوی کردی۔

Related Posts