بنگلہ دیش کی سابق وزیر اعظم شیخ حسینہ واجد اگست کے اوائل میں ایک عوامی بغاوت کے بعد اقتدار چھوڑنے پر مجبور ہوکربھارت فرار ہو گئی تھیں، ان کا استعفیٰ ملک میں جاری بدامنی کے بعد ہوا جس میں تقریباً 650 افراد ہلاک اور لاتعداد زخمی ہوئے۔
ملک میں پرتشدد واقعات پر حسینہ واجد اور ان کی ابینہ کے ارکان، پیروکاروں اور معاونین کے خلاف کم از کم 94 فوجداری مقدمات درج کیے گئے ہیں۔ ان کے خلاف قتل، تشدد، جبری گمشدگی اور اغوا سے لے کر انسانیت کے خلاف جرائم اور نسل کشی تک کے الزامات ہیں۔
عدالتوں کو حسینہ واجد کی غیر موجودگی میں مقدمہ چلانے کا اختیار حاصل ہے لیکن اس کے نتیجہ خیز ہونے کا امکان نہیں ہے ، ساتھ ہی حسینہ واجد کے موجود نہ ہونے پر عدالت کے احکامات پر عمل درآمد مشکل ہو گا۔
حسینہ واجد جب سے بنگلہ دیش سے فرار ہوئیں،تب سے ان کی قیادت میں ہونے والے جرائم کا مقدمہ چلانے کے لیے مطالبات کیے گئے لیکن یہ یقینی نہیں ہے کہ اگر بنگلہ دیش اس کی حوالگی کا مطالبہ کرتا ہے تو ہندوستان حسینہ واجد کو حوالے کرے گا یا نہیں۔
بنگلہ دیش اصولی طور پر بھارت سے حسینہ واجد کی واپسی کی درخواست کر سکتا ہے۔ نئی دہلی اور ڈھاکہ نے 2013 میں حوالگی کے معاہدے پر دستخط کیے تھے جس میں بعد میں 2016 میں اس عمل کو آسان بنانے کے لیے ترمیم کی گئی۔
دونوں ممالک ایسے معاہدے کے خواہشمند تھے۔ 1975 میں حسینہ واجد کے والد شیخ مجیب الرحمان کے قتل میں ملوث وہ مجرم جو بنگلہ دیش کے پہلے صدر بھی تھے، اس وقت ہندوستان میں روپوش تھے۔ حسینہ کی حکومت ان افراد کو پھانسی کے لیے بنگلہ دیش کے حوالے کرنا چاہتی تھی۔
کچھ ممالک جیسے کینیڈاودیگر مفرور افراد کی حوالگی سے انکار کرتے ہیں اگر اس بات کا امکان ہو کہ انہیں پھانسی دی جائے گی تاہم چونکہ بھارت نے بھی سزائے موت کو برقرار رکھا ہے، اس سے قطع نظر کہ مجرموں کو واپسی پر پھانسی کا سامنا کرنا پڑے گا۔
دوسری جانب بھارت نے کالعدم یونائیٹڈ لبریشن فرنٹ آف آسام عسکریت پسند تنظیم کے جنرل سیکریٹری انوپ چیتیا کوحوالے کرنے کا مطالبہ کیا۔ چیتیا نے ڈھاکہ میں 18 سال جیل میں گزارے تھے اور 2015 میں ہندوستان واپس آئے تھے۔
معاہدے کے مطابق صرف وہ جرائم جن کی سزا کم از کم ایک سال قید ہو، قابلِ ضمانت جرم ہو سکتے ہیں۔ اور اس جرم کی سزا دونوں ممالک میں ہونی چاہیے۔ حسینہ واجد کے خلاف الزامات بھارت میں قانونی کارروائی کے قابل ہیں اور مبینہ جرائم کی سزائیں بھی کافی ہیں، اس لیے انھیں ان بنیادوں پر حوالے کیا جا سکتا ہے۔