مقامی کاٹن مارکیٹ میں سندھ کے روئی کے بھاؤ مستحکم، پنجاب کے بھاؤ میں 400 روپے فی من کمی

مقبول خبریں

کالمز

"Conspiracies of the Elites Exposed!"
سرمایہ داروں کی خوشحالی، عوام کی غربت، پاکستان کی معیشت کا کھلا تضاد
Munir-Ahmed-OPED-750x750-1
پرتگال اور پاکستان کے درمیان 75 سالہ خوشگوار سفارتی تعلقات
Munir-Ahmed-OPED-750x750-1
دھوکا دہی کے بدلے امن انعام؟

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

کاٹن ایسوسی ایشن نے روئی کے اسپاٹ ریٹ میں فی من 300 روپے اضافہ کردیا
کاٹن ایسوسی ایشن نے روئی کے اسپاٹ ریٹ میں فی من 300 روپے اضافہ کردیا

مقامی کاٹن مارکیٹ میں گزشتہ ہفتہ کے دوران ٹیکسٹائل و اسپننگ ملز کی جانب سے روئی کی خریداری میں دلچسپی کی وجہ سے روئی کے بھاؤ میں اتار چڑھاؤ کے بعد مجموعی طور پر ملا جلا رجحان رہا۔ صوبہ سندھ کی روئی کا بھاؤ مستحکم رہا جبکہ پنجاب کی روئی کے بھاؤ میں فی من 400 روپے کی کمی ہوئی۔

نئی پھٹی کی ترسیل میں اضافے کے ساتھ ساتھ جننگ فیکٹریاں بھی جزوی طور پر شروع ہوتی جا رہی ہے ایک اندازے کے مطابق جون کے مہینے میں تقریبا 1 لاکھ روئی کی گانٹھیں تیار ہو جائیں گی جو گزشتہ کچھ سالوں کی نسبت زیادہ ہیں۔

سندھ کے زیریں علاقوں سے پھٹی کی رسد میں خاطر خواہ اضافہ ہو رہا ہے جس سے سندھ کی اندازاً 15 فیکٹریاں اور صوبہ پنجاب کی 10 جننگ فیکٹریاں جزوی طور پر چل رہی ہے گو کہ پنجاب کے کئی علاقوں میں بھی جزوی طور پر پھٹی کی آمد شروع ہو رہی ہے جس میں دن بدن اضافہ ہوتا رہے گا۔

کپاس کی فصل کے متعلق مختلف آراء سامنے آرہی ہے جس میں زیادہ تر کا خیال ہے کہ اس سال ملک میں روئی کی پیداوار اگر موسمی حالات موافق رہے تو 75 تا 80 لاکھ گانٹھوں کے لگ بھگ ہونے کی توقع ہے۔

ٹیکسٹائل سیکٹر سے منسلک لوگوں کی آراء ہے کہ اس سال ملک میں ٹیکسٹائل سیکٹر میں نئی مشینری کی درآمد کی جا رہی ہے تقریبا 20 لاکھ نئے اسپینڈل کے درآمدی معاہدے کرلئے گئے ہیں جن کے باعث روئی کی کھپت میں خاطرخواہ اضافہ ہوجائے گا۔

ملک میں روئی کی فصل میں اضافہ ہونے کے بجائے سالہا سال تشویشناک حد تک کمی ہوتی جارہی ہے جس کی وجہ سے بیرون ممالک سے وافر مقدار میں روئی کی درآمد کرنی پڑے گی اس سال كپاس کی فصل شروع ہو رہی ہے لیکن  روئی کا بھاؤ بین الاقوامی روئی کے بھاؤ سے فی من  1500 تا 2000 روپے زیادہ ہے اس کو مدنظر رکھتے ہوئے ملز کے کئی بڑے گروپس بیرون ممالک سے روئی کی درآمدی معاہدے کررہے ہیں۔

روئی کے درآمدکنندگان کا خیال ہے کہ اب تک نئی سیزن کے لیے تقریبا 3 لاکھ گانٹھوں کے لگ بھگ کے معاہدے کیے جا چکے ہیں۔ اگر ملک کی ٹیکسٹائل ملوں کی پیداواری صلاحیت بڑھے گی تو لازماً بیرون ممالک سے وافر مقدار میں روئی برآمد کرنی پڑے گی جس کی مد میں اربوں ڈالر کا قیمتی زرمبادلہ خرچ کرنا پڑے گا حکومت کی جانب سے دیگر فصلوں میں اضافہ کرنے کی غرض سے مراعات دی جارہی ہے لیکن کپاس کی فصل کو نظر انداز کیا جا رہا ہے۔

اس سال بھی بجٹ میں کپاس کی پیداوار بڑھانے کے لئے کوئی مثبت اقدام نظر نہیں آ رہے بلکہ پیداوار کا رقبہ مقرر کیا گیا تھا اسے بھی پورا نہیں کیا جاسکا۔ صوبہ پنجاب میں کپاس کی کاشت کیلئے 40 لاکھ ایکڑ رقبہ مقرر کیا گیا تھا لیکن تقریبا 34 لاکھ ایکڑ پر کاشت کی جا سکی اسی طرح صوبہ سندھ میں 17 لاکھ ایکڑ کی بجائے 14 تا 15 لاکھ ایکڑ پر بمشکل کپاس بوئی جاسکی۔

دوسری جانب کپاس کے کاشتکاروں کی حوصلہ افزائی بڑھانے کے لئے ان کو مراعات دینے کے بجائے روئی پر 10 فیصد سے بڑھا کر 17 فیصد سیلز ٹیکس عائد کر دیا گیا ہے جبکہ پھٹی پر بھی 17 فیصد سیلز ٹیکس لگایا گیا ہے۔ PCGA کے صدر ڈاکٹر جیسو مل لیمانی اور عہدیداران گزشتہ ایک ہفتے سے اسلام آباد میں سارے Ministers مشیروں سے ملاقات کر رہے ہیں لیکن جمعہ کے روز وزیر خزانہ شوکت ترین نے بجٹ میں لاگو کیے ہوئے کئی ٹیکسوں میں ردوبدل کر دیا ہے لیکن کپاس اور روئی کے متعلق ابھی تک موصول ہونے والی اطلاعات کے مطابق کوئی فیصلہ نہیں کیا گیا ہے جس کی وجہ سے کپاس سے منسلک تمام اسٹیک ہولڈرز خصوصی طور پر PCGA کے تمام جنرز ملز مالکان سخت اضطراب میں مبتلا ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ حکومت اس بری طرح سے کپاس کے کاشتکاروں جنرز وغیرہ کو نظر انداز کر رہی ہے کہ وہ سمجھ سے بالاتر ہے۔ PCGA کے ذرائع کے مطابق ان کے جائز مطالبات تسلیم نہ کیے گئے تو جننگ فیکٹریاں اور آئل ملز مجبورا بند کرنی پڑیں گی دوسری جانب مارکیٹ میں ایسی خبریں گردش کر رہی ہے کہ کچھ جنرز بدعنوانیوں میں ملوث ہوکر روئی کے ساتھ ویسٹ مکس کر رہے ہیں ان جنرز کی وجہ سے بڑی تعداد میں صحیح اور ایماندار جنرز کے کاروبار پر برا اثر پڑتا ہے اس لیے صحیح جنرز کو چاہیے کہ وہ بدعنوان جنرز کو روکیں۔

دوسری جانب کچھ ٹیکسٹائل ٹیکس بچانے کے لیے گول مول میں روئی خریدتے ہیں جس کے باعث صحیح کام کرنے والے ملز بھی بد نام ہو جاتی ہے اس لیے صحیح کام کرنے والی ملز کو چاہیے کہ وہ ایسے ملز کو روکیں روئی میں ویسٹ ملانے والے جنرز کا حوصلہ بڑھانے میں گول مول روئی کے خریدار میں شامل ہیں APTMA کو انکے خلاف سخت کارروائی کرنی چاہئے اسی طرح PCGA کو ایسے بدعنوان جنرز کا تدارک کرنے کیلئے سخت ایکشن لینا چاہئے۔ بدعنوان کاٹن بروکرز کا بھی قلع قمع کرنا چاہئے۔

ہفتہ کے دوران روئی کا بھاؤ اتار چڑھاؤ کے بعد صوبہ سندھ میں فی من 12900 تا 13200 روپے پھٹی کا بھاؤ فی 40 کلو 5700 تا 5900 روپے بنولہ کا بھاؤ فی من 1800 تا 2000 روپے رہا صوبہ پنجاب میں روئی کا بھاؤ فی من 13600 تا 13700 روپے پھٹی کا بھاؤ فی 40 کلو 5600 تا 6200 روپے جبکہ بنولہ کا بھاؤ فی من 2000 تا 2100 روپے رہا۔

کراچی کاٹن ایسوسی ایشن کی اسپاٹ ریٹ کمیٹی نے اسپاٹ ریٹ فی من 12600 روپے کے بھاؤ پر مستحکم رکھا۔

کراچی کاٹن بروکرزفورم کے چیئرمین نسیم عثمان نے بتایا کہ بین الاقوامی کاٹن مارکیٹ میں روئی کے بھاؤ میں مجموعی طورپر تیزی کا عنصر رہا۔ نیویارک کاٹن کے وعدے کا بھاؤ 86 تا 87 امریکن سینٹ فی پاؤنڈ رہا جبکہ USDA کی ہفتہ وار برآمدی رپورٹ کے مطابق گزشتہ ہفتے کے نسبت 33 فیصد برآمد کم رہا۔ اس ہفتہ میں بھی پاکستان 21-2020 اور 22-2021 کی امریکن روئی کی درآمد میں سر فہرست رہا۔

سیزن کے آغاز سے ہی بڑے پیمانے پر بیرون ممالک سے خریداری پاکستان کی پیداوار اور کوالٹی پر سوالیہ نشان ہے ڈالر انڈیکس میں تیزی اور یو ایس ڈی اے کی منفی ہفتہ وار ایکسپورٹ اینڈ سیل رپورٹ کے باعث نیویارک کاٹن کا بھاؤ مستحکم رہا۔

امریکا کی سیزن2020-21کی کاٹن فروخت 33 فیصد کمی کیساتھ 74 ہزار 700 بیلز جبکہ سیزن 2021-22 کی فروخت 44 فیصد اضافہ کیساتھ 1 لاکھ2 ہزار 900 بیلز رہی ۔گزشتہ ہفتے امریکا کی کاٹن ایکسپورٹ بھی 32 فیصد کمی کیساتھ 2 لاکھ 600 بیلز رہی۔رواں رپورٹ میں بھی پاکستان 1 لاکھ 30 ہزار 400 بیلز کی خریداری کے ساتھ امریکن کاٹن کاسب سے بڑا خریدار رہا۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ پاکستان کی کاٹن پیداوار پر سوالیہ نشان ہے کہ ٹیکسٹائل ملز سیزن کے شروعات سے ہی بیرون ممالک سے اتنی بڑی مقدار میں سودے کر رہی ہیں۔

برازیل میں نئی فصل کی روئی کی آمد شروع ہوچکی ہے وہاں روئی کے بھاؤ میں استحکام ہے۔ بھارت احمد آباد کے بڑے کاٹن بروکرز اور Gujcot Traders association (Gujarat) کے سیکرٹری اجے دلال نے بتایا کہ بھارت کی ٹیکسٹائل ملوں کی روئی کی خریداری میں دلچسپی کی وجہ سے بھارت میں روئی کے بھاؤ میں اضافہ ہورہا ہے۔

ذرائع کے مطابق چیئرمین پاکستان کاٹن جنرز ایسوسی ایشن ڈاکٹر جیسو مل نے چیئرمین پاکستان پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری سے بھی ملاقات کی اور انہیں کاٹن جنرز کو درپیش مشکلات سے آگاہ کیا، جس میں کاٹن سیڈ آئل پر 17 فیصد سیلز ٹیکس لگانے اور کپاس پر ٹیکس تناسب 10 فیصد سے بڑھا کر 17 فیصد کرنے کی تجویز بھی شامل ہے۔

دریں اثنا وزیر اعظم عمران خان کو حکومت کے اقدامات کے نتیجے میں ٹیکسٹائل کے شعبے میں بہتری کے تناظر میں جمعرات کو بریفنگ دی گئی۔

اجلاس میں وزیر اعظم کے مشیر تجارت و سرمایہ کاری عبدالرزاق داؤد ، خصوصی امور برائے امور سیاسی امور ملک عامر ڈوگر ، اور ممبر قومی اسمبلی عاصم نذیر ، رضا نصر اللہ گھمن ، خرم شہزاد اور صنعتکار شاہد نذیر نے شرکت کی۔

ایم این اے عاصم نذیر نے وزیر اعظم کو ٹیکسٹائل کے شعبے سے متعلق امور اور برآمدات میں اس کے کردار سے آگاہ کیا۔ انہوں نے ٹیکسٹائل کے شعبے میں مزید بہتری اور ترقی کے لئے وزیر اعظم کو تجاویز پیش کیں۔

اجلاس میں ملک کی سیاسی صورتحال ، بجٹ میں عوام کو ریلیف اور صنعتوں کی سہولت اور ترقی کے اقدامات پر بھی تبادلہ خیال کیا گیا۔

پاکستان میں روئی کی درآمد میں مسلسل اضافہ ہونے کی وجہ سے بین الاقوامی کاٹن کے برآمد کنندگان روئی کی برآمد کر توسیع دینے کی غرض سے مقامی ٹیکسٹائل ملز مالکان سے ملاقاتیں کررہے ہیں فی الحال اس مقصد کیلئے کاٹن کونسل انٹرنیشنل ( سی سی آئی ) کے نمائندے پاکستان آئے ہوئے ہیں اور مقامی ملز مالکان سے ملاقاتیں کررہے ہیں ان کے ہمراہ شپرز  بھی ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: محکمہ یونیورسٹیز اینڈ بورڈ کا عدالتی احکامات کے برعکس ناظمین اور سیکرٹریز بھرتی کرنے کا فیصلہ

Related Posts