سیاست کا تماشا گزشتہ 76 برسوں سے جاری ہے اور پاکستان کو بدعنوانی کی کتنی بھاری قیمت ادا کرنی پڑ رہی ہے، یہ کسی سے مخفی نہیں۔ بدعنوانی پاکستان میں ایک دیرینہ مسئلہ رہا ہے، جس نے ملک کے جمہوری اداروں اور اس کے شہریوں کی روزمرہ زندگی کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچایا۔
زیر نظر تحریر میں ہم پاکستان کے جمہوری معاشرے پر بدعنوانی کے منفی اثرات اور اس سے ملک کو پہنچنے والے نقصانات کا اجمالی جائزہ لیں گے جس کا مقصد کئی دہائیوں سے کرپشن کا سامنا کرنے والے ملک اور معاشرے کے مختلف طبقات کو پہنچنے والے نقصانات کا جائزہ لینا ہے۔
تو ہوا کچھ یوں کہ ملک کے سیاسی اور انتظامی نظام میں شفافیت اور احتساب کا فقدان اس کے جمہوری اداروں میں بڑے پیمانے پر بدعنوانی کا باعث بنا۔ سیاسی رہنماؤں، بیوروکریٹس اور دیگر بااثر شخصیات نے اپنی طاقت اور اثر و رسوخ کو دولت جمع کرنے اور نظام کو ذاتی فائدے کے لیے استعمال کرنے کے لیے استعمال کیا ہے، جس کی وجہ سے حکومت اور اس کے اداروں میں عوام نے اعتماد کرنا چھوڑ دیا۔
یہاں جمہوریت نام کی کوئی چیز عملی طور پر باقی نہیں رہی۔ بدعنوانی نے پاکستان کے جمہوری عمل کو بھی نقصان پہنچایا ہے۔ ملک میں انتخابات اکثر دھاندلیوں اور ووٹنگ کے عمل میں بدعنوانی کی دوسری صورتوں سے متاثر ہوتے ہیں، جس کے نتیجے میں انتخابی عمل سے بھی عوام کا بھروسہ اٹھنے لگا۔
الیکشن میں دھاندلی اور ہیرا پھیری اشرافیہ طبقے کا معمول بن گئی اور سیاسی نتائج پر اثر انداز ہونے کے لیے پیسے کا استعمال بھی ملک میں چند گنے چنے سیاسی خاندانوں کے ابھرنے کا باعث بنا، جہاں سیاسی طاقت نسل در نسل منتقل ہوتی رہتی ہے۔آج صورتحال اتنی خراب ہوچکی ہے کہ ملک کا کوئی عام آدمی سیاستدان بننا تو دور، اس کا خواب تک نہیں دیکھ سکتا۔
معاشی سطح پر بھی تباہ کن اثرات مرتب ہوئے، قومی خزانے کو اربوں ڈالرز کا نقصان پہنچا۔اپنی بدعنوانی کیلئے عوامی فنڈز کے استعمال سے ملک ترقی کیلئے انتہائی ضروری وسائل سے بتدریج محروم ہوتا چلا گیا، پہلے تو دیوالیہ ہونے کے خطرے سے ڈرایا گیا اور پھر ایسے بھاری بھرکم ٹیکسز عائد کیے جانے لگے جن کا ماضی میں تصور بھی محال تھا۔
یہی نہیں، بلکہ ملک میں ایک عام تنخواہ دار شہری سے لے کر سڑک پر بیٹھے دکاندار تک ہر شخص کو بھاری بھرکم ٹیکسز ادا کرنے پڑ رہے ہیں۔ ملکی وسائل برباد ہورہے ہیں۔ صحت اور تعلیم جیسے اہم شعبوں کی فنڈنگ کم ہو رہی ہے۔ بدعنوانی نے ملک میں غیر ملکی سرمایہ کاری کو بھی نقصان پہنچایا ہے جس کی وجہ سے معاشی تعمیر و ترقی سوالیہ نشان بن کر رہ گئی۔
آگے بڑھیں تو شعبۂ صحت، تعلیم اور صاف پانی جیسی بنیادی خدمات تک رسائی کی کمی نے آبادی کے بڑے حصے کو پسماندہ کردیا ہے، جس سے غربت اور عدم مساوات میں اضافہ ہوا ہے۔ بدعنوانی نے استثنیٰ کے کلچر کو جنم دیا ہے، جہاں طاقتور اشرافیہ من مانے فوائد حاصل کرتا ہے، اب نظامِ انصاف بھی کٹھ پتلی بن کر رہ گیا جو انصاف کے نام پر غریبوں اور متوسط طبقے کا خون چوستا ہے۔
ایک قدم اور آگے بڑھیں تو بدعنوانی کی وجہ سے ملک میں انتہاپسند گروہوں نے بھی جڑ پکڑ لی ہے، جو حکومت کی قانونی حیثیت کو کمزور کرنے کے لیے بدعنوانی کو ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔انتہا پسندی، دہشت گردی اور اسٹریٹ کرائمز نے شہریوں کی کمر توڑ کر رکھ دی۔
بدعنوانی کے دور رس مضر اور منفی اثرات کی وجہ سے عوام میں حق رائے دہی سے محرومی کا احساس پیدا ہوا ہے۔ بنیادی خدمات تک رسائی کا فقدان اور آبادی کے بڑے حصوں کا پسماندہ ہونا غربت اور عدم مساوات میں اضافے کا باعث بنا ہے۔ بدعنوانی نے ملک کے سماجی تانے بانے کو بھی ختم کر دیا ہے، جس سے سماجی ہم آہنگی کا فقدان جنم لے چکا ہے اور باہمی اتحاد پارہ پارہ ہوگیا۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ حکومتِ وقت کے ساتھ ساتھ پاکستانی قوم بھی ہوش کے ناخن لے اور بڑھتی ہوئی بدعنوانی اور اقربا پروری کو ختم کرتے ہوئے ملکی اداروں، عدلیہ اور مقننہ میں عدل و انصاف کا نظام اور بدعنوانی سے پاک ماحول تشکیل دیا جائے، بصورتِ دیگر پاکستان میں بھی کہیں کینیا جیسا حال نہ ہوجہاں عوام نے بھاری ٹیکسز عائد کرنے پر پارلیمنٹ پر دھاوا بول دیا تھا۔