بلین ٹری سونامی پروجیکٹ میں کرپشن کے الزامات

مقبول خبریں

کالمز

Ceasefire or a Smokescreen? The US-Iran Next Dialogue of Disillusions
جنگ بندی یا دھوکہ؟ امریکا اور ایران کے درمیان فریب پر مبنی اگلا مکالمہ
Israel-Iran War and Supply Chain of World Economy
اسرائیل ایران جنگ اور عالمی معیشت کی سپلائی چین
zia-2-1-3
بارہ روزہ جنگ: ایران اور اسرائیل کے نقصانات کا جائزہ

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

بلین ٹری سونامی پروجیکٹ ایک بار پھر سرخیوں میں ہے کیونکہ آڈیٹر جنرل آف پاکستان نے تحریک انصاف حکومت کے فلیگ شپ 10 بلین ٹری سونامی پروجیکٹ کے تین سال کے آڈٹ میں 3 ارب روپے سے زائد کی سنگین بے ضابطگیوں اور بے قاعدگیوں کا سراغ لگایا ہے۔

آڈیٹر جنرل  کی جانب سے ایک ارب 25 کروڑ  90 لاکھ روپے کے اخراجات کو مشکوک اور 98 کروڑ  29 لاکھ روپے کے اخراجات کو فرضی اورجعلی قرار دے دیا گیا ہے اور  ذمے داروں کے خلاف کارروائی کی بھی تجویز دی گئی ہے۔

بے ضابطگیوں کا پیمانہ اس بات پر تشویشناک ہے کہ کس طرح تقریباً 199 ایڈوانس آڈٹ پیراز نے عملے کی جعلی اور ضرورت سے زیادہ رپورٹنگ کو بے نقاب کیا، جس سے منصوبے کی شفافیت پر سوالیہ نشان لگ گیا۔

مثال کے طور پر ان شجر کاریوں کیلئے مختص زمین کے پیمائش میں زیادہ دعویٰ شدہ رقبہ دکھایا گیا جس کے نتیجے میں قومی خزانے کو 305.523 لاکھ روپے کا نقصان ہوا۔ اسی طرح، متعدد جنگلاتی ڈویژنوں نے مختلف علاقوں میں شجرکاری کی سرگرمیوں کا فرضی دعویٰ کیا، جو کہ بی ٹی ٹی پی کے تحت آنے والے علاقوں کو اوور لیپ کررہے ہیں۔

مزید برآں، غیر مستند ذرائع سے حاصل کیے گئے غیر تصدیق شدہ اور غیر گریڈ شدہ بیجوں نے نہ صرف حکومت کو 109.365 لاکھ روپے کا نقصان پہنچایا بلکہ ناکامی کے امکانات میں بھی اضافہ کیا۔

اس کا ذمہ کسی ایک ادارے پر نہیں آتا بلکہ درحقیقت، جیسا کہ آڈیٹر جنرل نے بھی کہا ہے، پوری چین آف کمانڈ کے نظم و نسق اور پیشہ ورانہ مہارت کے حوالے سے سوالات اٹھائے جانے چاہئیں۔

ایک ایسی سیاسی جماعت جس نے کرپشن کے خاتمے کے معاملے پر اپنا پورا بیانیہ اور تحریک استوار کی ہو، اس کے لیے یہ انکشافات یقیناً اچھے نہیں ہیں۔ یہ اب پی ٹی آئی کے سکینڈلز کے پورٹ فولیو میں ایک اور اضافہ ہے جس میں پشاور بی آر ٹی، مالم جبہ اور غیر ملکی فنڈنگ ​​کیس پہلے ہی شامل ہیں۔

آڈیٹر جنرل نے اعلیٰ سطحی انکوائری کی سفارش کی ہے اور یہ ضروری ہے کہ ذمہ داروں کا احتساب کیا جائے کیونکہ جب بات مالیاتی احتساب کی ہو اور یکساں معیارات کو برقرار رکھنے کی تو سب کے ساتھ ایک جیسا سلوک ہونا چاہیئے۔

Related Posts