اسلام آباد ہائی کورٹ نے تعلیمی اداروں میں بچوں پر تشدد روکنے کا حکم دیتے ہوئے اسکولوں میں بچوں کی جسمانی سزا پر پابندی لگا دی ہے۔ بچوں پر تشدد اور جسمانی سزا پر پابندی سے متعلق زندگی ٹرسٹ کے صدر گلوکار شہزاد رائے نے ہائیکورٹ میں درخواست دائر کی تھی۔عدالت نے آئین کے آرٹیکل 14 کے تحت بچوں پر تشدد روکنے کے حوالے سے اقدامات کا حکم دیتے ہوئے 5 مارچ تک رپورٹ طلب کرلی ہے۔
پاکستان میں استاد کی مار ایک روایتی جملہ ہے ،استاد کی مار کو طالبعلموں کی بہتری سے تعبیر کیا جاتا ہے،بچوں کی شخصیت پر گھر کے ماحول اور اساتذہ کا گہرااثر ہوتا ہے،ہر انسان اپنی ترقی و کامیابی کا سہرا اساتذہ کے سر باندھتا ہے تاہم کچھ بچے اساتذہ کے منفی رویہ کی وجہ سے غلط راہوں پر نکل پڑتے ہیںوہ محنت مزدوری کرلینا گوراہ کرتے ہیں مگر اسکول جانا نہیں چاہتے۔ جیسے ایک استاد پتھر کو ہیرا بنادیتا ہے ویسے ہی بعض اساتذہ اپنے منفی رویہ سے ہیروں کو پتھروں میں بدل دیتے ہیں ۔جسمانی تشدد بچوں میں ضد پیدا کرتا ہے اور اس کی شدت سے واقف ہونے کے بعد آہستہ آہستہ سزاء کاخوف ختم ہوجاتا ہےجس کے بعد بچے ڈھیٹ ہوجاتے ہیں۔
دنیا کی مہذہب ممالک میں تعلیمی اداروں میں بچوں پر جسمانی تشدد انتہائی معیوب سمجھا جاتا ہے اور بچوں پر جسمانی تشدد کی کسی طور پر اجازت نہیں دی جاتی ، 1979 میں سویڈن پہلا ملک تھا جہاں تعلیمی اداروں میں بچوں کو جسمانی سزا دینا ممنوع قرار دیا گیا جبکہ آج مہذب ممالک میں بچوں پر جسمانی تشددکا تصور ختم ہوچکا ہے لیکن پاکستان میں تعلیمی اداروں میں بچوں پر تشدد معمول کا حصہ سمجھا جاتا ہے۔
اسکولوں میں بنچ پر کھڑا کرنا ،مرغا بنانا ،کان مروڑنا،ہاتھ کی انگلیوں کے درمیان پنسل یا پین رکھ کر انگلیاں دبانا، اُٹھک بیٹھک ،دھوپ میں کھڑا کرنے سمیت بچوں کی مختلف طریقوں سے سزا دی جاتی ہے جس کی وجہ سے بچوں کے حقوق کے حوالے سے پاکستان 182 ممالک میں سے 154 نمبر پر ہے ۔
ایک رپورٹ کے مطابق سزاء کے خوف سے ہر سال تقریباً 35 ہزار بچے اسکول چھوڑ دیتے ہیں۔ملک میں ایسے کئی واقعات رپورٹ ہوچکے ہیں جن میں اساتذہ کے تشدد کے باعث طلبہ جان کی بازی ہارچکے ہیں۔ ایک ریسرچ کے مطابق تشدد سے تشدد میں اضافہ ہو جاتا ہے، بچے کوپیٹناخلاف آئین ہے کیونکہ بچوں کو مارنا ان کی ذہنی نشونما کیلئے نقصان دہ ہے۔سزا ء سے بچے کی شخصیت متاثر ہوتی ہےتشدد کے نتیجے میں بچوں کی دماغی نشوونما متاثر اور اعصابی و مدافعتی نظام کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچ سکتا ہے،ہمارے یہاں بچوں پر تشدد کی روک تھام کے لیے قوانین تو ہیں لیکن عملدرآمد کی صورتِ حال انتہائی مایوس کن ہے۔