کرونا وائرس جدید دور کی ایک ایسی وبا ء ہے جس نے پوری دنیا کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ ایکسوی صدی کی آزاد دنیا نے تصور بھی نہیں کیا تھا کے ایک وائرس پوری دنیا کو اس قدر متاثر کردے گا کے پوری دنیا گھروں میں قید ہونے پر مجبور ہوجائے گی۔ چین کے شہر ووہان سے شروع ہونے والی یہ وباء اب تکمتعدد ممالک کو اپنی لپیٹ میں لے چکی ہے۔
جس کی وجہ سے10 ہزار سے زائد لوگ اس وائرس سے ہلاک ہو چکے ہیں اور تقریبا 2 لاکھ سے زائد اس وائرس سے متاثرہو چکے ہیں۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ اس وائرس نے تمام ترقی یافتہ ممالک کو نشانہ بنایا ہے۔ چین، امریکا، برطانیہ، اٹلی، جرمنی، فرانس وغیرہ یہ سارے وہ ممالک ہیں جو ترقی کی دوڑ میں سب سے آگے ہیں آج وہ بھی اس وائرس کے آگے بے بس نظر آرہے ہیں۔
اس وائرس نے عالمی معیشت کو تباہ کرکے کھ دیا ہے۔ انسان نے کبھی تصور بھی نہیں کیا تھا کے ایسے حالات میں جب انسان مکمل طور پر ٹیکنولوجی میں جکڑا ہوا ہے، جب اسکی انگلی کی ایک حرکت سے پوری دنیا قابو ہو سکتی ہے اس وقت اسی انسان کے ہاتھوں یہ مہلک بیماری بے قابو ہو جائے گی۔ آج دنیا کا ہر شخص اس بیماری سے خوفزدہ ہے۔ دنیا کی ایک بڑی آبادی اس وائرس کا شکار ہو رہی ہے۔
چین نے تو کافی حد تک اس وباء پر قابو پالیا ہے لیکن اٹلی، امریکا اور برطانیہ کا ہر ڈاکٹر، سائنسدان سر پکڑے بیٹھا ہے کے کس طرح اس بیماری پر قابو پایا جاسکے۔ پاکستان بھی اس وائرس کا بری طرح سے شکار ہوگیا ہے پاکستان میں بھی مریضوں کی تعداد میں بدتدریج اضافہ ہورہا ہے۔ امید ہی کی جاسکتی ہے کہ جس طرح چین نے اس وائرس پر قابو پالیا ہے اسی طرح پاکستان اور دیگر متاثرہ ممالک بھی اس پر قابو پالینگے۔
ایسا پہلی بار نہیں ہوا ہے کہ کسی وباء سے اتنے لوگ متاثر ہوئے ہوں تاریخ میں ایسی کئی وبائیں پھیلی ہیں جس سے متاثر ہوکر نسلوں کی نسلیں ختم ہوگئی ہیں۔ بس فرق صرف اتنا ہے کہ اس وقت اتنے وسائل نہیں تھے جبکہ آج ہر طرح کے وسائل ہونے کے باوجود حالات پر قابو نہیں پایا جارہا ہے اور کثیر تعداد میں لوگ متاثر ہو رہے ہیں۔ لیکن جس طرح پہلے قابو پایا گیا ہے بلکل اسی طرح اس بیماری سے جلد ہی نجات مل جائے گی۔
یہ وہ مہلک بیماریاں ہیں جنہوں نے تاریخ میں دنیاں کی ایک بڑی آبادی کو موت کے گھاٹ اتار دیا ہے:
۱۔ سیاہ موت: یہ طاعون کی کئی قسموں میں سے ایک قسم کا طاعون تھا جو انسانی تاریخ کی سب سے بڑی وباء تھی۔ کہتی ہیں اس وباء نے دنیا کا نقشہ ہی بدل دیا تھا۔انسانی تاریخ آج تک اتنے بڑے سانحہ سے دوچار نہیں ہوئی جو اس بیماری سے ہوئی تھی۔ یہ وباء چین سے شروع ہوئی تھی جو دیکھتے ہی دیکھتے اٹلی کے شہر سسلی جا پہنچی۔
اس وباء نے 20 کروڑ کی آبادی کو موت کے گھاٹ اتار دیا تھا۔ اس بیماری نے بستیوں کی بستیاں اجاڑ کر رکھ دی تھی۔ یہ بیماری اس قدر شدید تھی کے پورے شہر میں مردے دفنانے تک کی جگہ تکموجود نا تھی۔ یہ بیماری عام طور سے چوہوں اور جنگلی گلہریوں سے پھیلتی ہے اور پھر ایک شخص سے دوسرے شخص میں با آسانی منتقل ہو جاتی ہے۔ اس کی علامت میں بخار، نزلہ، پیٹ درد، اور قے شامل ہے۔
اس دور میں علاج موجود نا تھا جس کی وجہ سے لوگ اس بیماری سے سسک سسک کے مر گئے۔ 1400تک طاعون کی وجہ سے انگلستان کی آبادی نصف رہ گئی۔ ۱۷۷۲ میں ایران میں طاعون کی وباء پھوت پڑی جس کی وجہ سے اس نے پورے ملک کو اپنی لپیٹ میں لے لیاتھا اور اس سے20لاکھ سے زائد افراد ہلاک ہوگئے تھے۔ اس وباء سے یورپ کی پوری آبادی ختم ہو گئی تھی جو آج تک اس تعداد تک نا پہنچ سکی۔
۲۔ کوکولز تلی: یہ وباء میکسیکو میں آئی تھی۔ اس وباء نے 50لاکھ سے ڈیڑھ کروڑ افراد کو موت کی نیند سلادیا تھا۔ اس بیماری سے میکسیکو کی پوری آبادی ختم ہوگئی تھی۔30 برس بعد یہ وباء دوبارہ میکسیکو میں پھوٹی تھی جس سے20۔52 لاکھ افراد موت کی آغوش میں چلے گئے۔ اس بیماری کا نا ہی کوئی علاج تھا اور نا ہی کوئی وجہ سامنے آئی۔ بس مریضوں کو تیز بخار اور بدن کے مختلف حصوں میں خون جاری ہوتا اور وہ موت کا شکار ہو جاتے تھے۔
۳۔نیند کی وباء: اس بیماری سے کئی لاکھ افراد متاثر ہوئے اور تقریبا51لاکھ ہلاکتیں ہوئی یہ1951۔1961 کے دوران یہ وباء پھوٹی تھی جس میں وائرس دماغ کے اندر جاکر حملہ کرتا تھا اور مریض پر غنودگی طاری ہو جاتی تھی۔ اس کی وجہ سے متاثرہ شخص ایک ہی جگہ بیٹھا رہتا اور ہل جل بھی نہیں پاتا تھا۔
۴۔انتونین کی وباء:اس وباء سے 50لاکھ لوگ ہلاک ہوئے۔ ۱۶۵ سے ۱۸۰ تک رہنے والی اس وباء نے یورپ کو ہلا کر رکھ دیا تھا۔ اس بیماری کے بارے میں پتا تو نا چل سکا کے اصل میں یہ بیماری ہے کیا اور کس چیز کے ذریعے یہ بیماری پھیل رہی ہے مگر اسکے لئے خسرہ اور چیچک کا نام لیا جاتا ہے کے یہ بیماری بلکل اسی طرح کی تھی۔
۵۔چیچک:چیچک تین ہزار سال پرانی بیماری ہے۔ تاریخ بتاتی ہے کہ اٹھاروئیں صدی میں پہلی بار چیچک کا مریض سامنے آیا تھا۔ ۱۸ صدی تک سوئیڈن اور فرانس میں پیدا ہونے والا ہر بچہ چیچک سے مر جاتا تھا۔ بڑے سے بڑے بادشاہ بھی اس بیماری کا شکار ہو کر مر گئے تھے۔
1950 میں یہ ایک خوفناک وباء کی صورت میں پھیلا اور تقریبا دو دہائیوں میں ۳ کڑوڑ سے ذائد افراد کو اس مہلک بیماری نے متاثر کرکے رکھ دیا۔ ۱۹۶۷ تک یہ تعداد کم ہوکر ایک سے ڈیڑھ کڑوڑ ہو گئی۔ ۱۹۷۰ تک سالانہ ۵۰ لاکھ افراد اس مرض سے متاثر ہو رہے تھے۔اس میں مریض کے جسم میں باریک دانے نکل آتے تھے، بخار اور فلو کی بھی علامت ظاہر ہوتی تھیں۔
۶۔ہسپانوی فلو: ۱۹۱۸۔۱۹۲۰ کی دہائی میں پھیلنے والی یہ وباء ہسپانوی فلو نے بھی دنیا کی آبادی کو نقصان پہنچایا تھا یہ وباء پھلی جنگ عظیم کے بعد پھوٹی تھی۔ دنیا بھر میں اس سے ۵ کڑوڑ ہلاکتیں ہوئی۔اس وقت دنیا کی آبادی تقریبا پونے دو ارب تھی جب کہ ہسپانوی فلو سے دنیا کا ہر تیسرا شخص متاثر ہوا تھا۔ یہ وباء اسپین میں پھیلی تھی اور اس سے متاثر زیادہ تر نوجوان نسل ہوئی تھی۔ یہ ایک خاص قسم کا فلو ہوتا تھا جس سے انسان ہلاک ہو جاتا تھا۔
۷۔جذام: دنیا بھر میں جذام سے لاکھوں افراد متاثر ہوئے۔ جذام کو عام زبان میں کوڑھ کا مرض کہا جاتا ہے۔ اس میں مریض کا جسم گلنا شروع ہوجاتا تھا۔ اس وقت علاج نا ہونے کی وجہ سے دنیا کی بڑی آبادی متاثر ہوئی۔
۸۔ایڈز: یہ وائرس ۱۹۷۶ میں سب سے پہلے مغربی افریقا میں چمپنزیوں سے انسانوں میں منتقل ہوا۔ اس وباء نے سب سے زیادہ افریقہ کو متاثر کیا۔ ۱۹۸۱ سے لے کر اب تک اس بیماری سے ساڑھے ۳ کڑوڑ سے زائد افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔ یہ وائرس خون کے اندر شامل ہو جاتا ہے۔
اسکے علاوہ دنیا میں دیگر بیماریاں پھیلی ہیں جس سے لوگ ہلاک ہوگئے ہیں اس میں کالی کھانسی، ٹی بی کا مرض، خناق، سارس وغیرہ شامل ہیں۔ ان سب بیماریوں کے آگے کرؤنا وائرس کچھ بھی نہیں ہے انشاء الہ جلد ہی اس پر قابو پالیا جائے گا۔ پہلے علاج نہیں تھا اب تو ہر بیماری کا مکمل علاج موجود ہے۔
اس وقت لوگ کرؤنا کے خوف کا شکار ہیں۔ جبکہ لوگوں کو چاہیئے کے وہ حوصلہ رکھیں اور جو ہدایت اس سے محفوظ رہنے کے لئے بتائی گئی ہیں ان پر مکمل عمل کریں تاکہ خود کو اور تمام لوگوں کو اس بیماری سے محفوض رکھا جاسکے۔