کورونا وائرس پر قابو پانے کی جدوجہد کرتی پوری دنیا کی حکومتیں معاملات میں توازن پیدا کرنے کی تگ دو میں مصروف ہیں لیکن ایسا لگتا ہے کہ عوام کی صحت ترجیح دینے اورمعاشی بحران سے دوچار پوری دنیا کی حکومتیں دونوں مسائل سے نمٹنے کے حوالے سے پریشان دکھائی دیتی ہیں۔
اس وقت پوری دنیا میں لاک ڈاؤن کے باعث معمولات زندگی منجمد ہوچکے ہیں اور ایسے میں آن لائن کام کرنے کی ضرورت پر زور دیا جارہاہے لیکن ان لوگوں کے لئے کیا حل ہے جو ممکنہ طور پر ’دور سے‘ یا ’آن لائن‘ کام نہیں کرسکتے ہیں؟ ۔
خوردہ کاروبار آن لائن کے ذریعے وسعت حاصل کرسکتا ہے کیونکہ آن لائن شاپنگ میں تبدیلی کا عمل کورونا سے بہت پہلے وقوع پذیر ہوچکاہے۔ ہوسکتا ہے کہ دیگر ادارے ای میلز اور آن لائن ملاقاتوں کے ذریعہ زندہ رہ سکیں۔
یہاں تک کہ حکومتیں ورچوئل میٹنگوں اور ٹیلیفون کالوں کے ذریعہ کام جاری رکھ سکتی ہیں لیکن کیا آپ نے کبھی کسی کو ورچوئل بال کٹوانے کے بارے میں سوچا ہے؟ یہ عملی طور پر ناممکن ہے۔
سرکاری نوٹس کے بعد ٹونی اور گائے کو تمام عملے اور کلائنٹس کی صحت کی حفاظت کے لئے اپنے دروازے بند کرنا پڑے اور بلو ڈرائرز اورقہقہوں کی آوازوں سے گونجتا سیلون اچانک خاموش کرادیا گیا۔
بال کی تراش خراش اور خوبصورتی کی صنعت ، جمنازیم اور سنیما گھروں پر مبنی کاروبارپر کورونا وائرس کا مالی اور معاشرتی اثر پڑا ہے۔ یہاں تک کہ بڑے تاجر یا مالیاتی ادارے بھی بغیر کسی آمدنی والے کاروبار کو چلانے پر غور نہیں کر سکتے تھے۔
ایک مثبت چیز یہ ہے کہ لوگ ایڈجسٹ کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں، جم کی رکنیت رکھنے والے ممبران کیلئے آن لائن کلاسز چل رہی ہیں ، سینما گھر آن لائن چل رہے ہیں لیکن سیلون میں جہاں خدمت قریبی جسمانی رابطے پر منحصر ہے یہ شعبہ بری طرح متاثر ہورہاہے اوراگر یہ وباء بڑھتی ہے تو بیوٹی اور سیلون کے پیشہ ور افراد کو ان کی صحت اور معاشی حالات کے حوالے سے خطرہ درپیش ہے۔
اس وقت کاروبار کی بند ش کے باعث ملازمین کو تنخواہوں کی ادائیگی ایک بہت بڑے بحران کو جنم دے سکتی ہے، فلم اور ٹیلی ویژن پروڈکشنزکی شوٹنگز ، براہ راست شوز اور میگزین کے شوٹس منسوخ کردیئے گئے ہیں یا آئندہ اطلاع تک شیڈول کردیئے گئے ہیں۔
سیلون مالکان کے پاس اگر اضافی رقم ہوگی تو وہ اپنی پس انداز کردہ جمع پونجی سے عاضی طور پر تو مشکل حالات کا مقابلہ کرلیں تاہم یہ سلسلہ طویل عرصہ جاری رکھنا مشکل ہے لیکن آجر پر بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ ہنر مندوں کو بیروزگارہونے سےبچائیں۔
اگر سیلونز کو کام کی اجازت دی جاتی ہے تواس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ سیلون معاشرتی فاصلے کی اہمیت کو بیان کرتے ہوئے سرکاری ہدایات پر عمل نہیں کریں گے تاہم سیلونوں کو باقاعدگی سے جانچنے کیلئے ریگولیٹری اداروں کے ساتھ سیلونزکی صنعت میں پیشہ ور افراد کے لئے معیاری آپریٹنگ طریقہ کار متعارف کروایا جاسکتا ہے۔
چینی ہیئر ڈریسرز کے تجربات سے کچھ سفارشات لی جاسکتی ہیں ، جو اب اپنے کاروبار کھولنے لگے ہیں۔ بیجنگ میں ایک وقت میں ٹونی اینڈگائے سیلون میں محدود تعداد میں افراد کے ساتھ کام جاری ہے۔
مزید برآں عملہ کے ساتھ ساتھ کلائنٹس کی صحت کی جانچ پڑتال کی جاتی ہے ، جراثیم کش ادویات کاچھڑکاؤ کیا جاتا ہے ،کلائنٹس ایک دوسرے سے ڈھائی میٹر کے فاصلے پر بیٹھتے ہیں اور عمر کے حساب سے لوگوں کیلئے وقت متعین کیا گیا ہے۔ بندشوں سے ہونے والے نقصانات کے ازالہ کیلئے ان سفارشات کا نفاذ زیادہ تر کاروباری اداروں کے لئے ایک بہت بڑا کارنامہ ہوگا۔
خاص طور پر پاکستان میں سیلونوں کی طویل بندش سے معاشرتی مضمرات کا سامنا ہے۔ بہت سی خواتین جو سیلون میں کام کرتی ہیں ان کے گھروں میں فاقوں کی نوبت آچکی ہے کیونکہ انہیں موقع نہیں دیا گیا ۔کوئی یہ بحث کرسکتا ہے کہ بیوٹیشن کے کیریئر کا انتخاب سنگین یا قابل احترام کیریئر نہیں سمجھا جاتا تھا۔ ان خواتین کو گھر میں رہنے اور ملازمت کرنے سے باز رہنے کے لئے کہا جاتا تھا۔
برسوں کے بعد خواتین نے اپنی ذاتی لڑائی پر قابو پالیا ہے اور اب وہ اپنے گھروں کو مالی طور پر چلانے اور اپنے بچوں کو تعلیم دینے میں اہم کردار ادا کر رہی ہیں۔ ان خواتین کے لئے سیلون نہ صرف ایک کام کی جگہ بن گیا ہے بلکہ ایک ایسی جگہ بن گیا ہے جہاں وہ خود کو بااختیار محسوس کرتی ہیں جس کی کمی آج شدت سے محسوس کی جارہی ہے۔
موجودہ وباء کے ساتھ ساتھ گھریلو تشدد اور ذہنی صحت کے خدشات میں بھی اضافہ ہوا ہے۔سیلونز میں کئی خواتین ایسے گھروں سے آتی ہیں جہاں گھریلو تشدد ، ذہنی اور جسمانی تشدد ان کی زندگی کے تانے بانے میں بنے ہوئے ہیں۔یہ کہنا بجا ہوگا کہ ان کے کام کی جگہ ان کیلئے ’محفوظ جگہ‘ بن چکی ہے۔