سید علی گیلانی کی جنرل مشرف سے جھڑپ کی کہانی

مقبول خبریں

کالمز

zia-2
آٹا 5560 روپے کا ایک کلو!
zia
برسوں ایران میں رہنے والی اسرائیلی جاسوس خاتون کی کہانی
Philippines, Pakistan, National Day, Dr. Emmanuel Fernandez, bilateral ties, diplomacy, climate change, development, peace, trade, education, cultural exchange, sustainable future, regional cooperation, Mabuhay, Filipino community, Islamabad celebration, soft power, South-South partnerships, innovation, resilience, post-colonial nations, mutual respect, global south
مشترکہ جدوجہد اور روشن مستقبل کی ایک خوبصورت تقریب

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

Controversy between Syed Ali Gilani and General Musharraf

50سال سے زیادہ عرصہ تک مقبوضہ کشمیر کی تحریک آزادی کی جنگ لڑنے والے سید علی گیلانی کی موت سے کشمیریوں کی آزادی اور حریت کی مضبوط آواز خاموش ہو گئی،علی گیلانی 5دہائیوں کی اس جدوجہد میں بھارت کی طرف سے کشمیر میں اٹھائے گئے ہر قدم کی مخالفت کرتے نظر آئے۔

دباؤ ،تشدد،قید سمیت بھارتی حکومت کا ہر حربہ انہوں نے ناکام بنایا مگر کشمیریوںکی جدوجہد اور نظریہ پاکستان کے ساتھ ان کی وابستگی میں کہیں بھی کمزوری نظر نہیں آتی،اگر چہ علی گیلانی کی پاکستانی عوام سے وابستگی شکوک سے بالا تر رہی ہے مگر کئی بار انہوں نے کشمیر کے حوالے سے پاکستانی حکمرانوں کے موقف کی کھل کر مخالفت کی۔

پاکستان کے حکومتی عہدیداروں کے ساتھ ملاقاتوں میں وہ اس بات کا کھل کر اظہار کرتے تھے کہ آپ کی پالیسیز کیا ہیں،ان کا خیال تھا کہ پاکستانی حکمران مصلحت کے تحت چلتے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ انہوں نے سابق صدر پرویز مشرف کے کشمیر فارمولے کی ڈٹ کر مخالفت کی اور پاکستان کے ہر دباؤ کو مسترد کیا۔

پاکستان کے سابق فوجی حکمران جنرل پرویز مشرف نے اپریل 2005میں بھارت کا دورہ کیا،ان کے ایجنڈے میں مسئلہ کشمیر سر فہرست تھا،دونوں طرف سے اس مسئلے کے حل کیلئے ایک فارمولے پر طویل عرصے سے کام کیا جا تھا ،اس5نکاتی فارمولے کے مطابق لائن آف کنٹرول کے دونوں طرف حالات کو نارمل رکھنے کیلئے فوجوں کی واپسی شامل تھی جبکہ اس بات پر بھی اتفاق کیا گیا کہ ایل او سی بارڈر برقرار رہے گا مگر دونوں طرف سے کشمیری آزادی سے آ جا سکیں گے،پرویز مشرف کے کشمیر فارمولے میں علاقے کو مختلف ریجن میں تقسیم کرنے اور پاکستان انڈیا کی مشترکہ نگرانی بھی شامل تھی،پرویز مشرف کی بھرپور کوششوں کے باوجود یہ فارمولا ناکام ہوا اور اس پر پیش رفت نہیں ہو سکی۔

خورشید محمود قصوری اس سارے عرصے میں پاکستان کے وزیر خارجہ تھے اور مشرف واجپائی کشمیر فارمولے پر پاکستان کی طرف سے ہونے والی پیش رفت کے نگران بھی وہی تھے،،خورشید قصوری نے اپنی کتاب میں اس فارمولے کی ناکامی کی وجہ صرف ایک شخص کو قرار دیا اور وہ تھے ۔سید علی گیلانی۔

خورشید قصوری نے لکھا ہے کہ علی گیلانی نے اس فارمولے کو مبہم قرار دیا اور بھرپور مخالفت کی،جنرل پرویز مشرف نے جب دلی کا دورہ کیا تو پاکستانی ہائی کمیشن میں ان کی ملاقات سید علی گیلانی سے ہوئی،ملاقات کے ایجنڈے میں کشمیر سر فہرست تھا اور مشرف علی گیلانی کو اپنے فارمولے پر راضی کرنا چاہتے تھے،پاکستان کے اس وقت کے وزیر اطلاعات مشاہد حسین سید بھی اس ملاقات میں موجود تھے،وہ بتاتے ہیں کہ جنرل پرویز مشرف کا فارمولا علی گیلانی کو ایک آنکھ نہیں بھایا جس سے دونوں کے در میان خوب ٹھن گئی۔

پرویز مشرف اور علی گیلانی کے در میان ملاقات اگرچہ خوشگوار ماحول میں شروع ہوئی مگر جلد ہی تلخی اس پر غالب آ گئی،دونوں کے در میان سخت جملوں کا تبادلہ ہوا اور آوازیں کمرے سے باہر تک جانے لگیں،اس ملاقات میں تلخی اتنی بڑھی کہ یہ ملاقات بغیر رسمی سلام دعاء کے اختتام پذیر ہوئی، مشاہد حسین کے مطابق انہوں نے گیلانی صاحب کو روکنے کی بہت کوشش کی مگر وہ ناکام رہے،جنرل پرویز مشرف کے ساتھ موجود عملہ اور سفارتخانے کے لوگ حیران تھے کہ علی گیلانی صدر مشرف کے سامنے اتنا ڈٹ سکتے ہیں۔

خورشید قصوری نے اپنی کتاب میں مزید لکھا ہے کہ اس سارے عرصے میں ان کی جن کشمیری لیڈرز سے ملاقات ہوئی وہ زیادہ حقیقت پسند تھے اور سید علی گیلانی کے موقف کی تائید کرتے نظر نہیں آتے تھےپاکستانی حکومت ،فوج کشمیری لیڈرز کے تمام تر دباؤ کے باوجود علی گیلانی اپنے موقف پر ڈٹے رہے اور مشرف واجپائی فارمولے کو خارج از امکان قرار دیا،جنرل پرویز مشرف کے علاوہ سابق وزیراعظم نواز شریف سے بھی علی سید علی گیلانی کے تعلقات مثالی نہیں رہے،مگر انہوں نے کبھی عوامی طور پر پاکستانی حکومتوں پر تنقید نہیں کی۔

مشاہد حسین سید کے مطابق سید علی گیلانی کو سچ بولنے میں کبھی ہچکچاتے نہیں دیکھا،انہوں نے پاکستان کی پالیسیوں کی کئی بار محالفت کی اور پاکستانی عہدیداران کے سامنے ان کا اظہار کیا مگر عوامی سطح پر وہ ایک ہی نعرہ لگاتے نظر آتے تھے کہ ہم پاکستانی ہیں، پاکستان ہمارا ہے۔

مشاہد حسین سید کے مطابق ایک ملاقات میں انہوں نے مجھے بتایا کہ ہم دونوں پاکستانی ہیں مگر فرق اتنا ہے کہ آپ لوگ آزاد پاکستانی ہیں اور ہم آزاد نہیں ہیں ،وہ کہتے تھے اس لیے جب پاکستان کی طرف سے کوئی ڈھیلا بیان آتا ہے تو ہمیں بہت افسوس ہوتا ہے،سید علی گیلانی نے پہلے سیاسی راستہ اختیار کیا وہ 5بار رکن اسمبلی بھی منتخب ہوئے مگر پھر انہوں نے فیصلہ کیا کہ شاید سیاسی یا انتخابی راستہ وہ راستہ نہیں جس سے انڈیا کو شکست دی جا سکے،انہوں نے کبھی بھی ملٹری آپشن کے حوالے سے معذرت خواہانہ رویہ اختیار نہیں کیا۔

علی گیلانی کا موقف تھا کہ ہندوستان کی آزادی کیلئے بھی گاندھی نے پرامن جدوجہد کا راستہ اختیار کیا جبکہ سبھاش چندو بوس نے عسکری جدوجہد کی باقاعدہ آزاد ہند فوج بنائی،علی گیلانی کے مطابق کشمیریوں کی جدوجہد آزادی بھی ایسے ہی ہے،ہم نے ہندوستانی تسلط سے آ زادی حاصل کرنی ہے چاہے پر امن جدوجہد سے ہو یا بندوق کی طاقت سے۔

سید علی گیلانی کو خاموش کرنے کیلئے یا بھارتی منصوبوں میں شامل کرنے کیلئے لالچ،دباؤ ،ظلم سمیت ہر حربہ استعمال کیا گیا مگر انہوں نے کبھی ہار نہیں مانی،اپنے قلم سے،زبان سے اور ا پنی سیاست سے علی گیلانی ہمیشہ بھارتی اقدامات کی راہ میں رکاوٹ بنتے نظر آئے،92سالہ زندگی میں سے لاشعوری کے 18سال نکال دیے جائیں تو پیچھے بچتے ہیں 74سالہ زندگی میں انہوں نے 28سال بھارتی جیلوں میں یا نظر بندی میں گزارے مگروہ کیا چیز تھی جس نے علی گیلانی کو اتنے لمبے عرصے تک اور اس اعتماد کے ساتھ بھارتی خبر کے سامنے کھڑا رکھا۔

مشاہد حسین سید کے مطابق علی گیلانی پکے مسلمان تھے،ان کے پاس ایک فولادی طاقت تھی ،علی گیلانی اس ذہن کے آدمی تھے کہ کسی بھی طرح کی جدوجہد میں منزل ہمارے ہاتھ میں نہیں ہم نے ٹھیک طرف کھڑے ہو کر اپنی کوشش کرنی ہے باقی نتائج اللہ تعالی کے ہاتھ میں ہیں،مشاہد حسین کے مطابق یہی وہ سوچ تھی جس نے انہیں کبھی جھکنے نہیں دیا۔

Related Posts