تعمیرات کے شعبے میں غیر یقینی

مقبول خبریں

کالمز

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

سپریم کورٹ کراچی کی مصروف ترین سڑک کے نزیک واقع بلند و بالا عمارت عمارت نسلہ ٹاور کو گرانے پر بضد ہے، اس سے قبل کے اعلیٰ عدلیہ شدید برہمی کا اظہار کرے، حکام کی جانب سے عمارت کو گرانے کے لئے توڑ پھوڑ کا آغاز کردیا گیا ہے۔

عمارت کے انہدام نے، جسے اب کھوکھلا کردیا گیا ہے، ٹوٹ پھوٹ کے بعد خستہ حال ہوچکی ہے، جس کے بعد اب ایسی ہی عمارتوں کی قسمت پر بھی تشویش پیدا ہوچکی ہے، جو مبینہ طور پر سرکاری اراضی پر غیر قانونی طور پر تعمیر کی گئی ہیں یا ان پر قبضہ کر لیا گیا ہے۔ لوگوں میں یہ بے یقینی بھی پائی جاتی ہے کہ ان کی عمارتیں مستقبل میں کسی بھی وقت منہدم ہو سکتی ہیں اور عدالتی احکامات پر انہیں بے گھر کیا جا سکتا ہے۔

اس تمام صورتحال کے بعد بلڈرز اور دیگر تعمیر کنندگان بھی پریشان ہیں، جو اپنے ہاؤسنگ پراجیکٹس اور ملک میں متوازی نظام کے بارے میں فکر مند ہیں۔ ان کا دعویٰ ہے کہ رہائشی اور کمرشل منصوبوں میں کسی بھی تضاد کا معائنہ کرنا حکومت کی ذمہ داری ہے لیکن منظوری ملنے کے باوجود ان کے خلاف بلا امتیاز کارروائی کی جا رہی ہے۔

کراچی میں 300 سے زائد منظور شدہ تعمیراتی منصوبے ہیں اور ہر ایک کی اوسط لاگت 3 ارب روپے ہے۔ اس طرح تقریباً 900 بلین روپے کی سرمایہ کاری 70 سے زائد شعبوں جیسے کہ اسٹیل، سیمنٹ، اینٹوں اور بجری، روزگار کے مواقع سب داؤ پر لگے ہوئے ہیں، اس صورتحال نے پورے ملٹی بلین تعمیراتی شعبے کو خطرے میں ڈال دیا ہے۔

بلڈرز کو عوام اور سرمایہ کاروں کا اعتماد بحال کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ انہوں نے ہاؤسنگ سیکٹر میں بہت زیادہ سرمایہ کاری کی ہے۔ یہ حکومت کے تعاون کے بغیر نہیں ہو سکتا، جسے سنجیدگی سے ان کی تشویش کا ازالہ کرنا چاہیے۔ ایس بی سی اے جیسے حکام کو جسے سپریم کورٹ نے سب سے زیادہ کرپٹ محکمہ قرار دیا ہے – کو قوانین کی خلاف ورزی کرنے والوں کے خلاف سخت کارروائی عمل میں لانا ہوگی۔

وقت کا تقاضہ ہے کہ تعمیراتی شعبے کے لیے ون ونڈو کی سہولت قائم کی جائے تاکہ بلڈرز اور سرمایہ کار مطلوبہ دستاویزات کے حصول کے لیے نہ بھاگیں۔ وزیر اعظم نے معیشت کی بحالی کے لیے تعمیراتی شعبے کو بہت اہمیت دی تھی۔ معاملہ صرف نسلا ٹاور یا اس جیسی عمارتوں کا نہیں ہے بلکہ پورے تعمیراتی شعبے کا ہے۔ حکومت کو چاہئے کہ اس اہم شعبے میں سرمایہ کاری کے تحفظ کی ضمانت دے۔

Related Posts