دیامر بھاشا ڈیم کی تعمیر کا سرکاری اعلان اور ملک میں بڑھتی ہوئی پانی کی ضروریات

مقبول خبریں

کالمز

Ceasefire or a Smokescreen? The US-Iran Next Dialogue of Disillusions
جنگ بندی یا دھوکہ؟ امریکا اور ایران کے درمیان فریب پر مبنی اگلا مکالمہ
Israel-Iran War and Supply Chain of World Economy
اسرائیل ایران جنگ اور عالمی معیشت کی سپلائی چین
zia-2-1-3
بارہ روزہ جنگ: ایران اور اسرائیل کے نقصانات کا جائزہ

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

دیامر بھاشا ڈیم کی تعمیر کا سرکاری اعلان اور ملک میں بڑھتی ہوئی پانی کی ضروریات
دیامر بھاشا ڈیم کی تعمیر کا سرکاری اعلان اور ملک میں بڑھتی ہوئی پانی کی ضروریات

اس بات سے کسی کو انکار نہیں کہ پاکستان میں آبی ذخائر کی ترویج کیلئے دیامر بھاشا ڈیم کی تعمیر وقت کی اہم ضرورت ہے جبکہ تحریکِ انصاف جب سے اقتدار میں آئی ہے،  اربوں کی لاگت سے تعمیر ہونے والے ڈیموں کی تعمیر کی ضرورت کم و بیش  اس وقت سے محسوس کی جارہی ہے۔

رواں ماہ 11 مئی کے روز وفاقی حکومت کے ترجمان و معاونِ خصوصی برائے اطلاعات ونشریات لیفٹیننٹ جنرل (ر) عاصم سلیم باجوہ نے اعلان کیا کہ دیامر بھاشا ڈیم کی تعمیر شروع کی جارہی ہے جو پاکستانی قوم کیلئے تاریخی خبر ثابت ہوگی جس کے معیشت پر مثبت اثرات مرتب ہوں گے۔

سوال یہ ہے کہ دیامر بھاشا ڈیم کی تعمیر کی ضرورت آج کیوں محسوس کی جارہی ہے جبکہ سابق صدر جنرل (ر) پرویز مشرف کے دورِ اقتدار میں کالا باغ ڈیم کی تعمیر کو متنازعہ قرار دے کر پورے منصوبے کو ردی کی ٹوکری کی نذر کردیا گیا اور کالا باغ ڈیم آج تک تعمیر نہ ہوسکا۔

دیامر بھاشا ڈیم کی تعمیر کا اعلان

سابق چیف جسٹس آف پاکستان  میاں ثاقب نثار کا دورِ منصفی اس حوالے سے دلچسپ رہا کہ انہوں نے مقدمات نمٹانے کی بجائے عوامی نوعیت کے مقدمات میں زیادہ دلچسپی دکھائی اور موبائل فون کمپنیوں کی زائد بلنگ سے لے کر ڈیمز کی تعمیر کیلئے فنڈ کے قیام تک اہم اقدامات اٹھائے۔

تین روز قبل سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر اپنے پیغام میں سابق ڈی جی آئی ایس پی آر اور موجودہ معاونِ خصوصی اطلاعات جنرل (ر) عاصم سلیم باجوہ نے کہا کہ دیامر بھاشا ڈیم کی تعمیر سے 16 ہزار 500 ملازمتیں پیدا ہوں گی جبکہ 4 ہزار 500میگا واٹ پن بجلی کی پیداوار بھی منصوبے کا حصہ ہے۔

جنرل (ر) عاصم سلیم باجوہ نے کہا کہ دیامر بھاشا ڈیم سے 12 لاکھ ایکڑ زرعی اراضی سیراب کی جائے گی جبکہ اس منصوبے سے تربیلا ڈیم کو بھی فائدہ پہنچے گا۔ تربیلا ڈیم کی زندگی میں 35 سال کا اضافہ ہوگا۔

ڈیمز فنڈ کا قیام ایک جذباتی فیصلہ

سپریم کورٹ نے دو سال قبل 4 جولائی کو حکم دیا کہ دیامر بھاشا اور مہمند ڈیم فوری طور پر تعمیر کیا جائے۔عدالت نے چیئرمین واپڈا کی سربراہی میں ایک کمیٹی بھی قائم کی جبکہ سابق چیف جسٹس نے ڈیمز کی تعمیر کیلئے ایک فنڈ قائم کیا۔

فنڈ میں عطیات دینے کی اپیل کرتے ہوئے سابق چیف جسٹس  میاں ثاقب نثار نے امید ظاہر کی کہ قوم 1965ء والا جوش و جذبہ ایک بار پھر تازہ کرے گی جبکہ انہوں نے اپنی جیب سے 10 لاکھ روپے کا عطیہ دے کر مخیر حضرات کی حوصلہ افزائی بھی فرمائی۔

اب تک سمندر پار پاکستانیوں سمیت ملک بھر کے شہری چیف جسٹس اور وزیر اعظم کے دیامر بھاشا اور مہمند ڈیم کی تعمیر کیلئے کروڑوں روپے جمع کروا چکے ہیں تاہم اپوزیشن کے بیانات اور حکومتی اعلانات سے معلوم ہوتا ہے کہ فنڈ کی رقم ڈیمز کی تعمیر کیلئے ناکافی ہے۔

حصار فاؤنڈیشن کے ماہرِ معاشیات ڈاکٹر پرویز عامر کہہ چکے ہیں کہ سپریم کورٹ کے قائم کردہ فنڈ سے ڈیمز کی تعمیر کی کل لاگت کا 5 فیصد حصہ بھی جمع ہوجائے تو اسے غنیمت سمجھنا چاہئے جبکہ عوامی چندے سے ڈیمز کی تعمیر ایک جذباتی فیصلہ دکھائی دیتا ہے۔ 

دیامر ڈیم کا تعمیراتی معاہدہ اور تکنیکی تفصیلات 

گزشتہ روز دیامر بھاشا ڈیم کی تعمیر کیلئے معاہدے پر دستخط کی تقریب منعقد ہوئی۔ ڈیم کے مرکزی حصے کی تعمیر کا ٹھیکہ   پاور چائنا اور فرنٹیئر ورکس آرگنائزیشن (ایف ڈبلیو او) کو مشترکہ طور پر دے دیا گیا جس پر 442 ارب روپے لاگت آئے گی۔

معاہدے میں ڈیم، پل اور پن بجلی گھر کی تعمیر کے ساتھ ساتھ ڈائی ورژن سسٹم بھی شامل ہے جبکہ چیئرمین واپڈا کے مطابق دیامر بھاشا ڈیم پر لاگت کا کل تخمینہ 1 ہزار 406 ارب 50 کروڑ روپے لگایا گیا ہے جس کی تعمیر 2028ء تک مکمل ہوگی۔

چیئرمین واپڈا نے بتایا کہ دیامر بھاشا ڈیم میں 8.1 ملین ایکڑ پانی ذخیرہ کرنے کی گنجائش ہوگی جس سے 4500 میگا واٹ بجلی پیدا کی جاسکے گی۔ قومی گرڈ کو 18 ارب یونٹ بجلی میسر آئے گی۔

تخمینوں میں تکنیکی سقم

دریاؤں کے تحفظ کی عالمی تنظیم انٹرنیشنل ریورز یہ کہہ چکی ہے کہ دنیا میں بڑے ڈیم بنانے کا رجحان کم ہو رہا ہے جس کی ایک بڑی وجہ ڈیم کی تعمیر میں لگائے گئے ابتدائی تخمینوں میں مسلسل اضافہ ہے جو کہیں رکتا دکھائی نہیں دیتا۔

یہی وجہ ہے  کہ وفاقی حکومت بھی دیامر بھاشا ڈیم کی تعمیر کیلئے مشکلات کا شکار نظر آتی ہے۔ قبل ازیں ورلڈ بینک، اے ڈی بی، آغا خان فاؤنڈیشن وغیرہ سے ڈیمز کی تعمیر کیلئے فنڈز کی بات کی گئی، تاہم کسی ادارے نے مثبت ردِ عمل نہیں دیا۔

جس علاقے میں دیامر بھاشا ڈیم کی تعمیر ہونی ہے وہ گلگت بلتستان کی حدود میں آتا ہے جسے عالمی اداروں نے متنازعہ قرار دے کر فنڈز کی فراہمی سے معذرت کی، تاہم حکومتِ پاکستان ایک بار پھر دیامر بھاشا ڈیم کی تعمیر پر کمربستہ ہے۔ 

پانی کے ذخائر کی صورتحال 

پاکستان میں پانی کے ذخائر تیزی سےکم ہو رہے ہیں۔ ملک میں 15میٹر سے زیادہ بلندی رکھنے والے ڈیمز تقریباً 150 ہیں۔ تربیلا ڈیم اور منگلا ڈیم کی تعمیر بالترتیب 70ء اور 60ء کی دہائی میں مکمل ہوئی۔

دو سال قبل ارسا نے کہا کہ تربیلا ڈیم ڈیڈ لیول تک آگیا ہے جبکہ منگلا میں پانی 8 لاکھ ایکڑ فیٹ ہے۔ مون سون کی بارشیں نہ ہوئیں تو پانی کا بحران شدید ہوسکتا ہے جبکہ عالمی ادارے مختلف رپورٹس میں کہہ چکے ہیں کہ 2040ء تک پاکستان میں پانی خطے کے ہر ملک سے کم ہوجائے گا۔

آج پاکستان زیادہ پانی استعمال کرنے والے ممالک کی فہرست میں چوتھا بڑا ملک ہے جس میں پانی ذخیرہ کرنے کے2 بڑے ذرائع محض 30 روز کا پانی جمع کرنے کے قابل ہیں۔بارش سے  ہر سال 145 ملین ایکڑ فٹ پانی حاصل ہوتا ہے جس میں سے 13.7 ملین ایکڑ فٹ بچایا جاتا ہے۔

ارسا 3 سال قبل سینیٹ میں یہ بات بیان کرچکا ہے کہ پاکستانی قوم ہر سال 21 ارب روپے کا پانی ضائع کردیتی ہے کیونکہ ہمارے پاس پانی کے ذخائر نہیں ہیں جبکہ سمندر میں جانےوالے پانی کو بچانے کیلئے منگلا ڈیم جیسے 3 مزید ڈیمز چاہئیں۔

پانی بچانا وقت کی ضرورت 

ضرورت اس بات کی ہے کہ قوم پانی کے استعمال میں احتیاط سے کام لے۔ موسم تیزی سے تبدیل ہو رہا ہے۔ بارشیں کم ہو رہی ہیں۔ آبادی بڑھ رہی ہے اور پانی کا غیر ذمہ دارانہ استعمال پانی کے ضیاع  کا باعث بن رہا ہے۔

ایسے میں ہر پاکستانی شہری کی یہ ذمہ داری ہے کہ بلا ضرورت پانی ضائع نہ کرے۔ پانی کے استعمال میں بے حد احتیاط کی ضرورت ہے جبکہ ملک میں پانی کی ضروریات ہر گزرتے روز کے ساتھ بڑھتی جارہی ہیں۔

Related Posts