اندھا بانٹے ریوڑیاں اور اپنوں کو دے کے مصداق بھارتی حکومت مقبوضہ جموں و کشمیر کے آبادیاتی تناسب کو تبدیل کرنے کے اقدامات اٹھانے میں مصروف ہے۔ مودی حکومت نے ہندو اقلیتوں کو زیادہ نمائندگی دے کر اکثریت یعنی مسلمانوں کی نمائندگی کم کرنے کیلئے حلقہ بندیوں کو از سر نو ترتیب دے دیا ہے۔
مقبوضہ جموں و کشمیر کے خطے کو مجموعی طور پر 90 حلقوں میں تقسیم کیا گیا ہے جن میں سے ہندو اکثریتی جموں کیلئے 43 جبکہ کشمیر کیلئے 47 نشستوں کی نمائندگی دی گئی جو کم و بیش مساوی کہی جاسکتی ہے جبکہ جموں میں صرف لداخ کی آبادی ہی کل آبادی کا تقریباً 42 فیصد بنتی ہے۔ مقبوضہ علاقے کا گزشتہ انتخابی حلقہ کشمیر کیلئے 46 جبکہ جموں کیلئے 37 نشستوں پر مشتمل تھا۔
مودی حکومت کا کہنا ہے کہ مقبوضہ کشمیر میں انتخابات جلد منعقد کیے جائیں گے تاہم اس قسم کے ناقص حلقوں پر مبنی کسی بھی قسم کی انتخابی مشق یا نام نہاد انتخابات کو سنجیدگی کے ساتھ قانونی حیثیت نہیں دی جاسکتی۔ حد بندی کمیشن کی رپورٹ کو کمیشن کی تمام بڑی سیاسی جماعتیں پہلے ہی مسترد کرچکی ہیں جن میں خود بھارت نواز جماعتیں بھی شامل ہیں۔ اگرچہ کچھ سرکاری بیانات میں یہ مضحکہ خیز بیان بھی داغا گیا کہ نئی حلقہ بندیوں کا مقصد مقبوضہ علاقے کے لوگوں کی نمائندگی میں اضافہ کرنا ہے۔
درحقیقت بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کی بی جے پی حکومت مقبوضہ جموں و کشمیر میں اپنے اصلی اور مذموم ارادے چھپانے کی احمقانہ کوششوں میں بری طرح ناکام ہوچکی ہے۔ بی جے پی نے مقبوضہ کشمیر کیلئے مثبت تبدیلیوں اور بہتر مستقبل کی ضمانت دینے کے سبز باغ دکھانے کی بھی کوشش کی تاہم ایسا صرف اسی صورت میں ممکن ہوگا جب مودی حکومت کی حمایت کی جائے۔
اسی دوران پاکستان کی جانب سے دفتر خارجہ نے بیان جاری کیا کہ نئی حد بندیوں کا مقصد بھارت کے زیر انتظام کشمیر کی مسلم اکثریتی آبادی کو حقِ رائے دہی اور عوامی طاقت سے محروم کرنا ہے۔ قابلِ ذکر یہ بات بھی ہے کہ مقبوضہ کشمیر اکتوبر 2019 کے بعد سے اب تک مودی حکومت کے فیصلے کے تحت کسی بھی سیاسی نمائندگی کے بغیر رہا ہے۔ حریت قیادت کو کئی ماہ تک جیل میں قید رکھا گیا۔
واضح رہے کہ مودی حکومت کشمیر کی مسلم اکثریت کو کمزور کرنے کی بھرپور کوشش کر رہی ہے۔ انتخابی حلقوں کو از سر نو ترتیب دینے سے بھارت کو مقامی مقننہ میں مسلم اکثریت کم کرنے میں مدد ملے گی۔ محسوس ایسا ہوتا ہے کہ بھارتی حکومت 2019 میں اٹھائے گئے اقدامات بشمول مقبوضہ کشمیر کی آئینی حیثیت ختم کرنے اور لاک ڈاؤن لگانے کی سنگینی کم کرنے کا تاثر دینا چاہتی ہے۔
بنیادی طور پر یہ مودی حکومت کا مقبوضہ جموں و کشمیر کے مظلوم عوام کے خلاف ایک اور قابلِ مذمت اقدام ہے جس کا مقصد آبادیاتی تناسب کو تبدیل کرنا اور ہندوؤں کو مسلمانوں پر مسلط کرنا ہے۔ اگر مقبوضہ کشمیر کی حریت پسند جماعتیں آئندہ انتخابات کا بائیکاٹ کرتی ہیں تو بی جے پی اور اس کے حلیف بڑی آسانی سے حکومت بنا لیں گے اور اگر وہ الیکشن لڑنے کا انتخاب کریں تو انہیں کشمیر کی آئینی حیثیت تبدیل کرنے کے اقدام کو قانوناً تسلیم کرنا پڑ جائے گا۔