آئین کی بالادستی، جمہوریت کی فتح

مقبول خبریں

کالمز

Munir-Ahmed-OPED-750x750-1
پرتگال اور پاکستان کے درمیان 75 سالہ خوشگوار سفارتی تعلقات
Munir-Ahmed-OPED-750x750-1
دھوکا دہی کے بدلے امن انعام؟
Ceasefire or a Smokescreen? The US-Iran Next Dialogue of Disillusions
جنگ بندی یا دھوکہ؟ امریکا اور ایران کے درمیان فریب پر مبنی اگلا مکالمہ

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

جمہوریت بہترین انتقام ہے۔ اس جملے نے آئینی و جمہوری خودمختاری کی دنیا میں آزادی کا احساس دلایا۔ یہ الفاظ محترمہ بے نظیر بھٹو کے تھے جنہیں بعد ازاں جمہوریت کی پاسداری کے جرم میں شہید کیا گیا جبکہ ان کے والد کو بھی جامِ شہادت نوش کرنا پڑا تھا۔

 عدالتی تاریخ میں ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی پر چڑھانا انصاف کے ساتھ ظالمانہ مذاق تھا جبکہ جمہوریت کے تانے بانے متحرک معاشرے کو مضبوط بنیاد فراہم کرتے ہیں۔ جمہوریت کے بغیر معاشرہ اس پرندے کی طرح لگتا ہے جس کے پر کاٹ دئیے گئے۔

حسن سہیل کے مزید کالمز پڑھیں: :

افغانستان میں نیا سورج طلوع

طالبان کا غلبہ

صحت مندانہ معاشرے کی کئی صورتیں ہیں جن میں سے ایک سوچ اور گفتگو کی آزادی بھی ہے مگر جمہوریت مخالف قوتیں آزاد خیالات کو اپنے معاشرے میں برداشت نہیں کر سکتیں اور یہ بات میرے اپنے ملک پاکستان پر صادق آتی ہے۔

پاکستان ایک ایسا ملک ہے جس کی بنیاد دو قومی نظرئیے پر رکھی گئی جو سانس لینے، رہنے، دعا کرنے، کمانے اور آزادئ اظہارِ رائے کی جگہ کہلاتی ہے۔ ایک ایسا ملک  جس کے باسیوں نے جمہوریت اور آزادی کے تصورات کیلئے ملک قائم کیا۔

افسوس کہ پاکستان آمریت کے شکنجے میں پھنس گیا۔ فوجی حکمرانوں کے ہاتھوں عوام کو سنگین ناانصافی سہنا پڑی یا پھر آمرانہ رجحان رکھنے والے سویلین حکمرانوں کے ہاتھوں ملک برباد ہوتا رہا۔ جمہوری اقدار کو آمرانہ سوچوں نے جکڑ لیا ہے۔

آج بھی پاکستان جمہوریت دشمنوں کے چنگل میں ہے۔ ان قوتوں کی دلیل یہ ہے کہ جمہوری اقدار پاکستان کیلئے موزوں نہیں۔ خاص طور پر ایک کثیر جہتی دنیا میں جہاں دیگر ممالک جمہوریت جیسے نظام کا متبادل تلاش کرتے نظر آتے ہیں۔

ہمارے ہاں ایک متحرک جمہوریت یا آزاد معاشرے کی بجائے ایک ہائبرڈ نظام حکمرانی کرتا نظر اتا ہے جو بعض مسائل پر تنقید نہیں کرتا جس کا ذکر کرنے کی ضرورت نہیں۔ یہاں تک کہ تعمیری تنقید کیلئے بھی ان کے ہاں قبولیت کا رجحان انتہائی کم ہے۔

کچھ غیر معمولی لوگ پھر بھی پاکستان کو آمریت کے اندھیروں میں دھکیلے جانے سے روک رہے ہیں۔ ایسے تمام نڈر صحافی، سوسائٹی کے اراکین اور چند جمہوری رہنما ہیں جو سب مل کر ریاست کو قلم، احتجاج اور بحث کی طاقت سے غور پر مجبور کر رہے ہیں۔ 

ریاست کو مجبور کیا جارہا ہے کہ وہ اس راستے پر غور کرے جس پر چل نکلی ہے۔ پاکستان کو زہریلی قوم پرستی نے گھیر رکھا ہے۔ مایوسی امید پر غالب آتی جارہی ہے اور آہنی ہاتھ حکمرانی کے فرائض نبھاتے نظر آتے ہیں۔

تاہم 20 کروڑ سے زائد آبادی کے حامل ملک کی امید تاحال ختم نہیں ہوئی۔ ہم جمہوریت کے محافظوں سے بہتر مستقبل کی امیدیں وابستہ کیے ہوئے ہیں تاکہ ایک بہتر، خوشحال اور ہمہ گیر پاکستان کی تعمیر کی جاسکے جہاں عوامی مینڈیٹ کا احترام کیا جائے۔

ہمیں ایک ایسا پاکستان چاہئے جہاں آئین کو برقرار رکھا جائے۔ اس کی دو حالیہ مثالیں ہمارے سامنے ہیں۔ پہلی یہ ہے کہ تقریباً 40 سال بعد جا کر طلبہ یونینوں پر عائد پابندی ختم کی گئی جو امید کی نئی کرن قرار دی جاسکتی ہے۔

ملک بھر میں دہائویں سے جاری خاندانی سیاست کے سائے میں طلبہ یونینز بھی پروان چڑھ رہی ہیں۔ دوسری مثال اختیارات کے نچلی سطح کو منتقل کرنے سے روکنے کے باوجود خیبر پختونخوا بلدیاتی انتخابات کا انعقاد کامیاب کرنا ہے جو کہ جمہوری قوتوں کی بڑی فتح ہے۔ 

Related Posts