رحمدلی عظیم صفتِ ایمان

مقبول خبریں

کالمز

Ceasefire or a Smokescreen? The US-Iran Next Dialogue of Disillusions
جنگ بندی یا دھوکہ؟ امریکا اور ایران کے درمیان فریب پر مبنی اگلا مکالمہ
Israel-Iran War and Supply Chain of World Economy
اسرائیل ایران جنگ اور عالمی معیشت کی سپلائی چین
zia-2-1-3
بارہ روزہ جنگ: ایران اور اسرائیل کے نقصانات کا جائزہ

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

رحم و کرم اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی عظیم ترین صفت ہے۔ مثال کے طور پر قرآن پاک کے آغاز یعنی بسم اللہ الرحمٰن الرحیم سے شروع کریں اور آگے پڑھتے رہیں تو اللہ تعالیٰ رحم فرمانے والا، سب سے زیادہ رحم کرنے والا، رحمان، رحیم اور کریم نظر آتا ہے۔ قرآنِ پاک میں اللہ تعالیٰ کیلئے یہ تمام الفاظ موجود ہیں۔ ہمیں قرآن یہ بھی بتاتا ہے کہ ہم اللہ سے جو رحم و کرم چاہتے ہیں اس کا مظاہرہ دوسروں کے ساتھ بھی کریں، بلکہ ان میں یہ صفات تقسیم کریں۔

سنن ابی داؤد کی حدیث نمبر4941 کے مطابق رحمت اللعالمین ﷺ نے فرمایا کہ تم زمین والوں پر رحم کرو، اللہ تعالیٰ تم پر رحم فرمائے گا۔

مندرجہ بالا حدیث اور دیگر احادیث کے علاوہ قرآنِ پاک میں سورۃ الرحمٰن موجود ہے اور ایسی ہی دیگر سورتیں ہمیں اپنی زندگی میں اللہ تعالیٰ کی عظیم ترین صفت کی پاسداری کا درس دیتی ہیں جس کا مطلب یہ لیا جاسکتا ہے کہ ذاتِ الٰہی کی انسانوں کو درس کردہ صفات کو اپنانا سب سے بڑی عبادت ہے۔

صحیح مسلم کی حدیثِ قدسی (حدیث نمبر 2569) کے مطابق رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ بے شک اللہ تعالیٰ قیامت کے دن فرمائے گا کہ اے ابنِ آدم، میں بیمار تھا لیکن تو نے میری عیادت نہیں کی۔ وہ کہے گا کہ اے میرے رب میں تیری عیادت کیسے کرتا جبکہ تو جہانوں کا رب ہے۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ فرمائے گا کیا تجھے معلوم نہیں تھا کہ میرا فلاں بندہ بیمار تھا لیکن تو اس سے ملاقات کیلئے نہیں گیا اور کیا تجھے علم نہیں تھا کہ اگر تو اس کی عیادت کرتا تو تو مجھ سے اس کے ذریعے ملاقات کر لیتا؟(پھر اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ)اے ابنِ آدم میں نے تجھ سے کھانا طلب کیا لیکن تو نے مجھے کھانا نہیں کھلایا۔ وہ کہے گا کہ اے میرے رب میں تجھے کیسے کھلاتا جبکہ تو جہانوں کا رب ہے۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا کیا تو نہیں جانتا کہ میرے فلاں خادم نے تجھ سے کھانا مانگا لیکن تو نے اسے کھانا نہیں کھلایا۔ کیا تو اس بات سے واقف نہ تھا کہ اگر تو اسے کھلاتا تو تیرا کھانا تجھے مجھ سے مل جاتا۔ (اللہ تعالیٰ پھر فرمائے گا کہ) اے ابنِ آدم میں نے تجھ سے پینے کیلئے مشروب طلب کیا لیکن تو نے مجھے نہیں دیا۔ بندہ کہے گا کہ اے میرے رب، میں تجھے کیسے دیتا، تو جہانوں کا پروردگار ہے۔ اللہ فرمائے گا کہ میرے فلاں اطاعت گزار بندے نے تجھ سے مشروب طلب کیا لیکن تو نے اسے نہیں پلایا۔ اگر تو پلاتا تو تیرا مشروب تجھے مجھ سے مل جاتا۔

مذکورہ بالا حدیث کے ذریعے اللہ تعالیٰ نے ہمیں یہ درس دیا کہ ہم اللہ کی عطا کی گئی نعمتیں اپنے ہمسایوں اور دیگر ضرورت مندوں پر خرچ کریں جنہیں مدد کرنے کے مواقع اللہ تعالیٰ ہمیں فراہم کرتا ہے۔

ہم جانتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے نبئ آخر الزمان ﷺ کو رحمتِ دو جہاں بنا کر بھیجا، جیسا کہ قرآنِ کریم کی سورۃ الانبیاء کی آیت نمبر 107 میں بیان ہوا ہے کہ ہم نے آپ ﷺ کو تمام جہانوں کیلئے رحمت بنا کر بھیجا۔ رسول اللہ ﷺ کی بعثت کا مقصد یہ تھا کہ ہمیں سیرتِ نبوی ﷺ سے رحم و کرم اور ہمدردی سکھائی جائے تاکہ ہم روزِ قیامت اللہ تعالیٰ کی رحمت کے مستحق بن سکیں۔

قرآن کریم میں سورۃ آلِ عمران میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ رسولِ اکرم ﷺ (اپنی گفتگو میں) نرمی کرتے تھے، اور اگر آپ ﷺ سخت دل ہوتے تو وہ (یعنی صحابہ کرام) آپ ﷺ سے الگ ہوجاتے۔ اس لیے آپ ﷺ انہیں معاف کردیں اور ان کیلئے(اللہ سے) مغفرت طلب کریں اور انہیں مشاورت میں ساتھ رکھیں۔ اور جب فیصلہ کرنے لگیں تو اللہ پر توکل کریں۔ بے شک اللہ ان لوگوں سے محبت کرتا ہے جو اس پر بھروسہ کریں۔

آج ہم یہ تصور بھی نہیں کرسکتے کہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کسی بھی حال میں رسول اللہ ﷺ کو اکیلا چھوڑ سکتے تھے لیکن مندرجہ بالا آیت میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اگر آپ ﷺ رحم نہ فرماتے اور معاذ اللہ سنگدلی کا معاملہ کرتے تو صحابہ آپ ﷺ کو چھوڑ سکتے تھے۔ یہی مثال ہم اپنے آس پاس کے لوگوں پر لاگو کرسکتے ہیں کہ وہ بھی ہمیں چھوڑ دیں گے اگر ہم سختی اور تلخی سے بات چیت شروع کردیں۔ اس لیے ہمدردی مومن کی سب سے بڑی خوبی مانی جاتی ہے۔

بخاری شریف کی حدیث نمبر5997 میں روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ اپنے نواسے کے ساتھ کھیل رہے تھے اور اللہ کے رسول ﷺ نے حسن ابنِ علی رضی اللہ عنہ کو بوسہ دیا جبکہ ایک شخص قریب ہی بیٹھا تھا۔ اس نے کہا کہ میرے 10 بچے ہیں اور میں نے کبھی ان میں سے کسی کو نہیں چوما۔ اللہ کے رسول ﷺ نے اس پر ایک نظر ڈالی اور فرمایا کہ جو دوسروں پر رحم نہیں کرتا، اس پر رحم نہیں کیا جاتا۔

اس شخص نے رسول اکرم ﷺ سے پوچھا کہ میں اپنے دل کو نرم کس طرح کرسکتا ہوں تو رسولِ اکرم ﷺ نے اس سے کہا کہ ایک یتیم بچے کی پرورش کرو یا کم از کم اس کے سر پر ہاتھ پھیرو جس سے تمہارے دل میں رحم پیدا ہوگا۔

اگر دل میں دوسروں کیلئے ہمدردی پیدا کرنی ہے تو اس کیلئے اہم ترین طریقہ یتیموں کی دیکھ بھال ہے اور نباتات اور حیوانات کی دیکھ بھال بھی کی جاسکتی ہے۔ مسجدِ نبوی ﷺ کے اندر بلیاں آزادی سے گھومتی اور صحابہ کے ساتھ کھیلتی تھیں۔ نبی اکرم ﷺ کی سب سے زیادہ احادیث روایت کرنے والے صحابی حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بلیوں سے بہت شفقت سے پیش آتے تھے اور اسی وجہ سے رسول اللہ ﷺ نے آپ کو بلیوں والا  یعنی ابوہریرہ کا خطاب عنایت فرمایا۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی آستین میں ایک چھوٹا سا بلی کا بچہ رہتا تھا جو نماز کے وقت بھی موجود ہوتا تھا۔

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی مثال سے ہمیں پتہ چلتا ہے کہ ہماری ہمدردی صرف انسانوں کیلئے نہیں بلکہ جانوروں اور پودوں کیلئے بھی ہے۔ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے جب مسجدِ نبوی ﷺ کی تعمیر شروع کی تو اس کے احاطے کو بڑھانے کیلئے ایک چھوٹا سا کھجور کا درخت کاٹنے لگے جسے کاٹنے سے رسول اللہ ﷺ نے انہیں روک دیا اور یہی وہ درخت تھا جسے ٹیک لگانے کیلئے رسول اللہ ﷺ استعمال فرمایا کرتے تھے اور اسی کے قریب آپ ﷺ کی امامت میں صحابہ کرام نمازوں کی ادائیگی کیا کرتے تھے۔

مہربانی اور رحم دلی انسان کیلئے زندگی گزارنے کا عظیم ترین طریقہ ہے جو اسے مومن بنانے کیلئے سب سے اہم ہے۔ ہر چیز جس کی ہم دیکھ بھال کرتے ہیں اور ہر وہ جانور یا انسان جس کے ساتھ ہمدردی کرتے ہیں، وہ خوبصورت اور پہلے سے بہتر ہوجاتا ہے۔ ہمدردی اسلام کی اصل روح سے تعلق رکھتی ہے۔ دیگر تعلیمات کے مقابلے میں ہمدردی، رحم اور شفقت کی خوبی کو اسلام میں کہیں زیادہ اہمیت حاصل ہے۔

تمام تر مضمون میں جہاں کہیں اچھی باتیں لکھی گئیں، وہ اللہ تعالیٰ کی مہربانی اور رحم و کرم سے ممکن ہوئیں جبکہ غلطیاں میری ذاتی خطا اور انسانی لغزش کا نتیجہ ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو رحم و کرم کی توفیق عنایت فرمائے (آمین)۔ 

Related Posts