موجودہ دور میں ریاستی ستون جس طرح ایک دوسرے سے ٹکراتے دکھائی دیتے ہیں، ملکی تاریخ میں اس کی بہت سی مثالیں دی جاسکتی ہیں جو اپنے آپ میں کسی المیےسے کم نہیں، کیونکہ اگر عدلیہ، مقننہ اور اداروں سمیت ریاست کے ستون آپس میں تصادم کی ہی پالیسی پر چلیں گے تو عوامی مسائل کون حل کرے گا؟
سابق وزیر اعظم عمران خان نے حال ہی میں ایک ہی روز کے دوران 2 مختلف مقدمات میں ضمانت حاصل کرکے گرفتاری سے بچنے کی راہ ہموار کی، کیونکہ وزیرِ داخلہ رانا ثناء اللہ دیدہ و دل فرشِ راہ کیے ان کی گرفتاری کی تمام تر تیاریاں مکمل کرچکے تھے، جیسا کہ ان کے بیان سے بھی ظاہر ہوا۔
تحریکِ انصآف کے چیئرمین اپنا مسئلہ لے کر عدالت کے ہاں پہنچے تو وہاں سے بھی سخت ریمارکس سننے کو ملے۔ عموماً اسلام آباد ہائیکورٹ سمیت دیگر عدالتیں کوشش کرتی ہیں کہ سیاسی تنازعات کو عدالتوں سے دور رکھا جائے کیونکہ ایسے تنازعات کے حل کیلئے بہتر فورم اسمبلی ہال ہے، عدالت نہیں۔
گزشتہ روز اسلام آباد ہائیکورٹ نے عمران خان کی تقریر پر پابندی کی درخواست ایک ہدایت کے ساتھ نمٹا دی، تاہم اس سے قبل اتوار کے روز کی گئی عمران خان کی ایک تقریر نزع کا باعث بنی جس پر مبینہ طور پر معزز عدالت کو اعتراض تھا، ریمارکس دئیے گئے کہ کیا آپ نے عمران خان کا بیان سنا؟ کیا سیاسی قیادت اس طرح کی ہوتی ہے؟
سیاسی رسہ کشی کو گیم آف تھرونز قرار دیتے ہوئے معزز جج نے استفسار کیا کہ کیا گیم آف تھرونز کیلئے ہر چیز داؤ پر لگائی جاتی ہے؟ آپ چاہتے ہیں جو مرضی ہو کہیں اور ادارہ آپ کو ریگولیٹ بھی نہ کرے جس پر سابق وزیرِ اطلاعات فواد چوہدری نے کہا کہ جج صاحبان کا ہر موضوع پر کمنٹس دینا نامناسب ہے۔
بلاشبہ فواد چوہدری کے بیان پر دو مختلف آراء سامنے آسکتی ہیں۔ ایک رائے تو یہ ہوسکتی ہے کہ یقیناً جج صاحبان کو سیاسی انداز میں بات چیت نہیں کرنی چاہئے جو خبروں کی شہ سرخی بن جائے کیونکہ ججز کے ریمارکس نہیں، ان کے فیصلے بولتے ہیں تاہم جو ریمارکس آئے ان میں عدلیہ کا بھی قصور نہیں تھا۔
آپ اپنا مقدمہ خود لے کر اسلام آباد ہائیکورٹ گئے۔ عدالت تو چل کر عمران خان کے پاس نہیں آئی تھی، اس لیے عدلیہ کو بھی کم از کم زیرِ نظر مقدمات تک کیلئے اپنی رائے کے اظہار کا اتنا ہی حق دیا جانا چاہئے جتنا کہ سیاستدانوں کو حاصل ہوتا ہے۔
ایک طرف عدالتوں میں انصاف ملنے کی صورتحال اتنی خراب ہے کہ بعض اوقات مقدمے کی سماعت شروع ہونے سے قبل سالوں انتظار کرنا پڑتا ہے جبکہ دوسری جانب سیاستدان عوامی مسائل کے حل کی بجائے اقتدار کی جنگ پر زیادہ توجہ دیتے ہیں اور ان دونوں معاملات سے عوام کے بنیادی انسانی حقوق کا بڑا گہرا تعلق ہے۔
آئینِ پاکستان ہر شہری کواس کے بنیادی انسانی حقوق کی ضمانت دیتا ہے لیکن افسوسناک طور پر عدلیہ اور مقننہ تصادم سے بچنے کی بجائے غیر ضروری معاملات کو طول دیتے دکھائی دیتے ہیں جس سے وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ عوام کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوتا جارہا ہے۔