سپریم کورٹ نے ریلوے خسارہ کیس میں وزیر ریلوے شیخ رشید احمد، سیکریٹری ریلوے اور سی ای او ریلوے کو کل طلب کرتے ہوئےکہا ہے کہ پاکستان میں ریلوے سے زیادہ کرپٹ کوئی ادارہ نہیں ہے، ریلوے میں کوئی چیز درست نہیں چل رہی۔
ریلوے خسارہ کیس کی سماعت چیف جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے کی، دوران سماعت ادارے کی آڈٹ رپورٹ پیش کی گئی جس پر چیف جسٹس کی جانب سے شدید برہمی کا اظہار دیکھنے میں آیا ، جسٹس گلزار احمد نے ریمارکس دیے کہ ریلوے میں کوئی چیز درست انداز میں نہیں چل رہی، آپ کا سارا ریکارڈ کمپیوٹرائزڈ ہونے کے بجائے مینول ہے۔
چیف جسٹس کا اپنے یمارکس میں کہنا تھا کہ جس کو ریلوے وزارت درکار ہے، اسے پہلے خود ریلوے کا سفر کرنا چاہیے، اس سے زیادہ کرپٹ پاکستان میں کوئی ادارہ نہیں، اسٹیشن کی صورتحال درست ہیں نہ ٹریک اور نہ ہی سگنل، ریل پر سفر کرنے والا ہر فرد خطرے میں سفر کر رہا ہے۔
شیخ رشید کی قیادت میں ریلوے کی کارکردگی
پاکستان تحریک انصاف کے اقتدار میں آتے ہیں وزیراعظم عمران خان کے قریبی ساتھی شیخ رشید نے وزارت ریلوے کا قلمدان سنبھالا، شیخ رشید کی قیادت میں وزارت ریلوے مسافروں کو مطمئن کرنے میں ناکام نظر آتی ہے جہاں کرایوں میں کئی فیصد اضافے کے باوجود خسارہ ہوا وہیں حادثات اور ٹرینوں کی تاخیربھی ایک معمول کا حصہ بنتا جارہا ہے۔
جہاں ایک جانب وزیر ریلوے شیخ رشید احمد پہلے تین ماہ میں ہی دس اور ایک سال میں مجموعی طور پر 34 نئی ٹرینیں پٹڑی پر لے آئے ویسے ویسے حادثات کی تعداد میں بھی اضافہ ہوتا گیا۔ گزشتہ ایک سال کے دوران ٹرینوں کے100 کے قریب حادثات دیکھے گئے جن میں نا قابل تلافی جانی و مالی نقصانات پیش آئے۔
ریلوے کے اعداد و شمار کے مطابق مجموعی طور پر خسارہ 27 سے 32 ارب روپے پر آگیا ہےجس میں گزشتہ 25 سال سے اضافہ ہوتا جارہا ہے،وزیرریلوے شیخ رشید کی ساری توجہ ریلوے خسارے پر قابو پانے کے بجائے سیاست اور مسلسل ریلوےکے کرائے بڑھانے پر مرکوز ہے اور ان کے آنے کے بعد ریلوے کرایوں میں جو ریکارڈ اضافہ ہوا ہے، اس کی مثال ماضی میں نہیں ملتی۔
پاکستان ریلوے کے بڑھتے ہوئے حادثات
ریلوے کے پے درپے حادثات محکمہ ریلوے کے لئے لمحہ فکریہ ہیں جس کی وجہ سے عوام میں شدید تشویش پائی جاتی ہے آج بھی کراچی سے راولپنڈی جانے والی سرسید ایکسپریس ٹرین کی دوبوگیاں آوٹر سگنل کے قریب پٹری سے اتر گئی تھی تاہم مسافر معجزانہ طورپر محفوظ رہے۔
گزشتہ برس پاکستان ریلوےمیں ایک بڑا اور انتہائی افسوسناک واقعہ پیش آیا تھا جب رحیم یار خان کے قریب ریلوے میں آگ لگنے کی وجہ سے سے 74 مسافر ہلاک ہو گئے تھےاور مقامی لوگوں نے اپنی مدد آپ کے تحت لاشیں نکالیں اور زخمیوں کو نکالا جو ریلوے کی اندرونی بدتری کا واضح ثبوت ہے۔
وفاقی وزیر ریلوے شیخ رشید احمد کی جانب سے ساری ذمہ داری ان مسافروں پر ڈال دی گئی تھی جو چولہا اور سلنڈر لے کر ٹرین میں سوار ہوئے تھے۔
دوسرا بڑا حادثہ اکبر ایکسپریس کو پیش آیا جس نے 21 جانوں کا چراغ گُل کیا، اس حادثے میں 100 افراد زخمی ہوئے تھے، رواں سال ریلوے پھاٹک نہ ہونے کے باعث بھی 26 لوگ پٹریوں پر زندگی کی بازی ہارے، حسب روایت ریل گاڑیوں کا پٹریوں سے اترنا بھی معمول بنا رہا۔
پاکستان ریلوےکی رپورٹ کے مطابق گزشتہ برس سب سے زیادہ جون میں 20 حادثات ہوئے جس میں انسانی جانوں کے ساتھ ساتھ محکمہ ریلوے کو بھی کروڑوں روپے کا نقصان برداشت کرنا پڑا۔
پاکستان ریلوے کا بڑھتا ہوا خسارہ
شیخ رشید احمد نے وزیر ریلوے بنتے ہی پرانی ٹرینوں کی کارکردگی بہتر بنانے کی بجائے پرانی بوگیوں کو رنگ کرکے نئی ٹرینیں چلانے کو اپنا مشن بنایا اور ابتدا وزیر اعظم کو خوش کرنے کے لیے میانوالی ایکسپریس چلا کر کی جس سے ریلوے خسارہ بڑھا۔
کراچی میں دھابیجی ایکسپریس چلا کر خسارہ مزید بڑھایا اور آخر بند کرنا پڑی، پشاور تا کراچی ریلوے کا ایک اہم ٹریک ہے اور ٹریک کی مرمت کی بجائے بوگیوں کی تزئین و آرائش کرا کر نئی چھ ٹرینیں چلائی گئی ۔
ریلوے کی ریکارڈ پر نظر ڈالیں تو ریلوے خسارہ مسلسل بڑھ رہا ہے جب کہ مسافر ٹرینوں میں رش بھی مسلسل بڑھ رہا ہے جسے کم کرنے کے لیے وزیر ریلوے نے غیر اعلانیہ کرایہ بڑھانے کا جو سلسلہ شروع کیا تھا وہ خاموشی سے بڑھایا جاتا رہاہے اکنامی کلاس میں 50 میل سے زائد سفر کرنے پر فی ٹکٹ ایک سو روپے بڑھا دیا گیاہے اور ریلوے کرائے میں چھ تا سات فیصد کرایہ بڑھانے کا اعلان کردیاگیا ہے۔
ریلوے کی بدترین کارکردگی کی وجوہات
پاکستان کے قیام سے قبل 1861ء میں خطے میں سب سے پہلی ریلوے لائن کراچی اور کوٹڑی کے درمیان بچھائی گئی تھی، ہردورمیں ریلوے میں انقلابی اقدامات کا دعوی کیا جاتا رہاہے لیکن نظام جوں کاتوں ہے نئی ٹرینیں چلانے کی بجائے نظام میں بہتری ناگزیر ہے۔
1862 میں آپریشنل ہونے والی ریلوے اصل میں اپنی عمر پوری کر چکی ہے جبکہ اسے اس حال تک پہنچانے میں ہمارے حکام کی کوتاہیاں بھی شامل ہیںکیونکہ کبھی اسے اپ ڈیٹ کرنے کی کوشش نہیں کی گئی اور ریلوے کی بحالی کے حوالے سے جتنے بھی دعوے کیے جا تے ہیں وہ حقیقت پر مبنی نظر نہیں آتے۔
پاکستان میں ریلوے کا نظام بہت وسیع مگر کافی پرانا ہے اور جس نوعیت کی بحالی کی اسے ضرورت تھی وہ آج تک نہیں ہوئی ہے، پاکستان میں ٹرین حادثات کی تین بڑی وجوہات ہیں جن میںریلوے ٹریک سے متعلقہ مسائل ہیں، اس کے علاوہ ریل کےپرانے انجن اور بوگیاں، ریلوے سگنل کا نظام اور افرادی قوت کی کمی بھی پاکستان ریلوے کا بڑا مسئلہ ہے۔
عالمی سطح پر ریلوے کو ایک مکمل نظام سمجھا جاتا ہے اور اس پر ریسرچ ہوتی رہتی ہیں۔ لیکن پاکستان ریلوے میں ہر بار حادثہ ہونے پر نظام میں تحقیقات کے بعد نشاندہی کر کے خامیاں دور کرنے کی بجائے کسی چھوٹے ملازم کو واقعہ کا ذمہ دار قرار دیکر اگلے حادثے کا انتظار شروع ہو جاتا ہے۔
حالات کیسے بہتر بنائے جاسکتے ہیں؟
پاکستان ریلوے کے بڑھتے ہوئے خسارے اور حادثات کے باعث سیاسی حلقوں اور عوام کی جانب سےر شیخ رشید سے استعفے کا مطالبہ کیا جاتا رہا ہے، نظر یہی آتا ہے کہ سیاسی مفادات اور دکھاوےکی پالیسیاں ٹرینوں کے پٹڑیوں سے اترنے اور دیگر حادثات کی وجہ ہیں ۔
وزیر ریلوے کو سیاست سے زیادہ توجہ ریلوے کارکردگی بہتر بنانے پر دینا ہو گی،شیخ رشیداپنی نیوز کانفرنسز میں زیادہ تر زمینی حقائق کو نظر انداز کرتے ہیں اور نئی ٹرینیں چلانے اور ریونیو بڑھانے کے بڑے بڑے دعوے کرتےنظر آتے ہیں جبکہ پریس کانفرنسز ان کی توجہ ملک کی سیاست پر زیادہ نظر آتی ہے، شیخ رشید کو بطور وزیر ریلوے اپنی روش بدلنی ہوگی ورنہ صورتحال مزید بدترین ہوجائےگی۔