بچوں سے زیادتی کے واقعات

مقبول خبریں

کالمز

Munir-Ahmed-OPED-750x750-1
پرتگال اور پاکستان کے درمیان 75 سالہ خوشگوار سفارتی تعلقات
Munir-Ahmed-OPED-750x750-1
دھوکا دہی کے بدلے امن انعام؟
Ceasefire or a Smokescreen? The US-Iran Next Dialogue of Disillusions
جنگ بندی یا دھوکہ؟ امریکا اور ایران کے درمیان فریب پر مبنی اگلا مکالمہ

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

ملک بھر میں جب بھی بچوں سے زیادتی کے واقعات کا ذکر آئے تو ہمارے ذہنوں میں قصور کی 6 سالہ بچی زینب کی یادیں تازہ ہوجاتی ہیں جس کے والد نے اپنی بیٹی کو انصاف دلانے کیلئے آواز اٹھائی تھی۔

زینب نامی اس معصوم بچی کے ساتھ زیادتی ہوئی اور اسے قتل کردیا گیا لیکن زینب نہ تو ایسے واقعات شکار ہونے والی کوئی پہلی بچی تھی اور نہ آخری، کیونکہ بدقسمتی سے ہمارے ملک میں ایسے واقعات کا سلسلہ کافی پہلے سے جاری ہے جو اب تک ختم نہیں ہوا۔

لاہور کے علاقے مناواں میں 10 سالہ بچی سوئمنگ پول میں ڈوب کر جاں بحق ہوئی جو ہسپتال پہنچی تو مردہ تھی۔ والدین نے الزام عائد کیا کہ بچی کو زیادتی کا نشانہ بنانے کے بعد قتل کیا گیا تھا۔ رنگ روڈ پر بچی کی لاش رکھ کر احتجاج بھی کیا گیا۔

اگر پاکستان میں ایسے واقعات رپورٹ کیے جائیں تو کہا جاتا ہے  کہ دیگر ممالک میں پاکستان سے کہیں زیادہ جرائم ہوتے ہیں، ان پر تو میڈیا واویلا نہیں مچاتا؟ آپ لوگ اتنا شور کیوں مچاتے ہیں؟

میڈیا کا واویلا مچانا ایک الگ بات سہی، جن بچیوں سے زیادتی ہوئی اور ان کا گلا گھونٹ کر یا کسی تیز دھار آلے سے ان معصوموں کو قتل کردیا گیا، کیا ان کے والدین یا لواحقین احتجاج بھی نہ کریں؟ اور اگر میڈیا ان کی بات احبابِ اقتدار تک پہنچائے تو کیا وہ کوئی جرم ہے؟

غور طلب بات یہ ہے کہ پاکستان میں بچوں اور بچیوں کے ساتھ زیادتی کے واقعات میں ہوشربا اضافہ ہورہا ہے۔ معاشی مسائل بڑھنے سے جرائم جنم لیتے ہیں لیکن بچوں کے ساتھ زیادتی کوئی ایسا جرم نہیں جسے مالی مسائل سے منسلک کیاجاسکے۔

ایک اور پریشان کن بات یہ ہے کہ جن بچوں کے کیسز میڈیا کی زبانی بھی عوام تک پہنچائے جاتے ہیں، انہیں بھی انصاف ملتے ملتے مہینوں لگ جاتے ہیں اور بعض اوقات سالوں گزر جانے کے باوجود کیس کا کوئی فیصلہ نہیں ہوتا۔

رواں ماہ کے آغاز میں قوتِ سماعت سے محروم لڑکی کو بھی لاہور میں ہی زیادتی کا نشانہ بنایا گیا۔ گزشتہ ماہ پشاور میں زیادتی کے بعد بچیوں کو قتل کرنے والے ملزم کو گرفتار بھی کیا گیا تھا جس نے اعترافِ جرم کیا۔

آئی جی خیبر پختونخوا معظم جاہ کا کہنا تھا کہ ملزم قانون کی گرفت میں ہے، ہم نے اسے کینٹ ڈویژن سے گرفتار کیا۔ سیریل کلر نے 3 بچیوں کو زیادتی کا نشانہ بنانے کے بعد قتل کرنے کی کوشش کی جن میں سے 2 جاں بحق ہوگئیں۔

زیادتی اور قتل سمیت دیگر جرائم کے انسداد کیلئے پولیس سمیت دیگر قانون نافذ کرنے والے ادارے اپنا کام کر رہے ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ معاشرہ بھی اپنی فرسودہ روایات، غیر ضروری شرم و جھجک اور جرائم کی رپورٹنگ سے اجتناب کی روش کو ترک کرے اور جرائم کی روک تھام یقینی بنائے۔ 

Related Posts