تبدیلی جارہی ہے۔۔

مقبول خبریں

کالمز

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

خیبرپختونخواہ میں بلدیاتی الیکشن کے پہلے مرحلے میں مولانافضل الرحمن نے عمران خان کووہ بائونسرماراہے کہ جس کے بعد خان صاحب کے پاس ریٹائرڈہرٹ ہونے کے علاوہ کوئی آپشن نہیں بچاہے،مولانافضل الرحمن کاپہلے دن سے مئوقف ہے کہ عمران خان کوجعلی طریقے سے بیساکھیوں کے سہارے اقتدارکے ایوانوں تک پہنچایاگیاہے اوراب تک وہ بیساکھیوں کے سہارے ہی چل رہے تھے مگراب شایدوہ بیساکھیاں بھی عمران خان اوران کی ٹیم کی نااہلی کے بوجھ سے ٹوٹ چکی ہیں یہی وجہ ہے کہ ہوائوں کارخ تبدیل ہورہاہے ،خیبرپختونخوا کے عوام نے تبدیلی کوواپسی کاراستہ دکھادیاہے تبدیلی جہاں سے آئی تھی وہیں واپس جارہی ہے۔

تین سال قبل ملک پرپی ٹی آئی کاعذاب آیاتھااورآج حالت یہ ہے کہ لوگ ہاتھ جوڑکراس تبدیلی سے پناہ مانگ رہے ہیں جبکہ خیبرپختونخواہ کے عوام کے حوصلے کوداددیناہو گی کہ انہوں نے آٹھ سال یہ تبدیلی برداشت کی مگروہ بھی اب اس تبدیلی سے عاجزآچکے ہیں اگرچہ خیبرپختونخوا کے عوام نے تمام تر حکومتی دباؤ کے باوجود ابھی ہاتھ کافی ہولا رکھا ہے۔ عوام آپ کی سوچ سے بھی زیادہ ناراض ہیں،کے پی کے عوام پرتبدیلی کاجوخمارتھا وہ اترچکاہے لوگ پی ٹی آئی کے وزاراء سے صرف نفرت کااظہارنہیں کررہے بلکہ ان پرحملہ آوربھی ہورہے ہیں اگریہی حالت رہی توآئندہ الیکشن میں پی ٹی آئی کاٹکٹ لینے والابھی کوئی نہیں ملے گا۔

سوال یہ ہے کہ لوگ پی ٹی آئی کوکیوں ووٹ دیں ؟تحریک انصاف کاکون ساکارنامہ ہے کہ جس کی تعریف کی جائے ۔عوام اورملک کی فلاح کے لیے کون سے منصوبے ہیں جوبنائے گئے ہیں ۔کون سے اقدامات ہیں کہ جن کی تعریف کی جائے۔وفاق،کے پی کے ،پنچاب اوربلوچستان میں ایسے کون سے کارنامے سرانجام دیئے ہیں کہ جن پرعوام خوشی کے شادیانے بجائیں ؟ تبدیلی کے جھوٹے نعرے کے علاوہ ان کے امیدواروں کے پاس کون سانعرہ ہے کہ وہ عوام کے پاس لے کرجائیں ؟میں توسمجھتاہوں کہ پی ٹی آئی کے امیدواروں کی ہمت ہے کہ جوان حالات میں بھی ،،بلے ،،کے انتخابی نشان پرووٹ مانگ رہے ہیں۔

پی ٹی آئی کی حکومت یہ کارنامہ ہے کہ ان کے ترجمان ،وزاراء بدزبانی ،جھوٹ ،الزام تراشی ،بہتان درازی ،درغ گوئی ،میڈیاٹرائل کے مااہرہیں ،پی ٹی آئی کے ترجمان جس کوسیاست کابارہواں کھلاڑی کہتے تھے اس نے انہیں دن میں تارے دکھادیئے ہیں مولانافضل الرحمن نے میڈیاٹرائل کے باوجود اپناجمہوری سفرجاری رکھا مولاناجمہوری آدمی ہیں جمہوریت کے ذریعے ہی انتقام پریقین رکھتے ہیں اورانہوں نے ووٹ کے ذریعے پی ٹی آئی سے انتقام لیاہے جمعیت علماء اسلام نے سیاسی میدان میں مقابلہ جیت کر تمام ترزیادتیوں کاسودسمیت جواب دیاہے ۔

2018کے الیکشن میں دھاندلی کے ذریعے جب مولانافضل الرحمن کواسمبلی سے باہرکیاگیاتویارلوگوں نے یہ سمجھا کہ یہ مدرسے کاعام مولوی ہے مایوس ہوکربیٹھ جائے گا اس کی جماعت تتربترہوجائے گی مولاناکی جماعت میں رخنہ ڈالنے کی کوشش کی گئی ان کی جماعت سے سیاسی نابالغ کھڑے کیے گئے کہ جومولاناکوچیلنج کرسکیںمولاناکے ساتھیوں پرجھوٹے مقدمات قائم کیے گئے ،نیب کے مقدمات کی دھمکیاں دی گئی کرپشن کے الزامات لگائے گئے ،کشمیرکمیٹی کے فنڈزکے آڈٹ کی پھلجڑیاں چھوڑی گئی ،میڈیاٹرائل کیاگیامولاناکے خلاف کچھ مذہبی بہروپیے بھی میدان میں اتارے گئے مگریہ سب حربے ناکام ہوگئے اورتمام ترسازشوں ،الزامات اوردھمکیوں کے باوجود مولاناڈٹ کرمیدان میں کھڑے رہے ۔

مولانافضل الرحمن نے گزشتہ الیکشن کے بعدپہلے دن سے حکومت کوللکارتے ہوئے اعلان بغاوت کیا ،دیگرسیاسی جماعتیں اگرمولاناکے اعلان پرعمل کرتے ہوئے اسمبلیوںکا حلف نہ اٹھاتیں توملک وقوم کے آج یہ حالات نہ ہوتے۔ آج سبھی تسلیم کررہے ہیں کہ مولانانے جومشورہ دیاتھا وہ ٹھیک تھا مولانانے دیگرسیاسی جماعتوں کی بے اعتنائی دیکھتے ہوئے اپنے کارکنوں کی طرف رخ کیا اپنی جماعت کومنظم کیا مایوس کارکنوں کوحوصلہ دیا۔دھاندلی کازخم جو ان کے ووٹروں کولگایاگیاتھا اس پرمرحم رکھا اورملک بھرمیں لاکھوں افرادپرمشتمل ملین مارچ کیے جس کے بعدکراچی سے اسلام آبادتک مارچ کیااور اسلام آبادمیں تاریخی اورپرامن دھرنادیا۔اورایک وقت وہ بھی آیاکہ اپوزیشن کی تمام جماعتیں مولاناکے پیچھے کھڑی نظرآئیں۔

مولانافضل الرحمن کی حکومت مخالف تحریک پرلوگ مختلف قسم کے اعتراضات اٹھاتے رہے کہ اس کاکیافائدہ ہوگا ؟کچھ لوگوں نے اسے بے وقت کی راگنی گردانا،مگرمولانامستقل مزاجی سے اپنے کارکنوں کالہوگرم رکھنے کاساماں کرتے رہے ،یہ اسی کانتیجہ ہے کہ آج کے پی کے بلدیاتی الیکشن کے نتائج نے ان سب اعتراضات کاعملی طورپرجواب دے دیاہے ۔مولانافضل الرحمن بتاتے رہے کہ ملک میں تبدیلی نہیں عذاب آیاہے جو ملک وقوم کاستیاناس کردے گا پی ٹی آئی سیاست کاوہ غیرضروری عنصرہے جس کاخاتمہ ضروری ہے یہ جماعت کرونااوردیگرمہلک وائرس سے بھی زیادہ خطرناک ہے اورآج وقت نے ثابت کیاہے کہ حکومت وزراء اوربہی خواہ بھی یہ کہنے پرمجبورہیں کہ ملک دیوالیہ ہوچکاہے ،۔

کے پی کے بلدیاتی الیکشن کے نتائج واضح کررہے ہیں کہ پی ٹی آئی دھاندلی اوربیساکھی کے بغیرالیکشن میں کامیاب نہیں ہوسکتی ،2018کے الیکشن ہوں،سینٹ الیکشن ہو،چیئرمین سینٹ کاالیکشن ہو،پی ٹی آئی شفاف طریقے سے کبھی بھی کامیاب نہیں ہوئی ،جہاں دھندنہیں ہوگی یاآرٹی ایس سسٹم نہیں بیٹھے گا وہاں پی ٹی آئی کاحال کے پی کے جیساہوگا،پی ٹی آئی کوبھی معلوم ہے کہ ان کی کارکردگی ایسی نہیں کہ لوگ ان پراعتمادکریں یہی وجہ ہے کہ پی ٹی آئی کے رہنماء کے پی کے میں بلدیاتی الیکشن سے راہ فراراختیارکررہے تھے سپریم کورٹ کے حکم پربلدیاتی الیکشن کافیصلہ کیابھی توغیرجماعتی بنیادوں پرالیکشن کروانے کااعلان کردیاجس کے خلاف سیاسی جماعتوں نے عدالتوں کارخ کیااورپھرعدالتی حکم پرجماعتی بنیادوں پرالیکشن ہوئے۔

بلدیاتی الیکشن کے اعلان کے بعد وزیراعظم سمیت وزاراء کے ہاتھ پائوں پھول گئے الیکشن کمیشن کے روکنے کے باوجود وزیراعظم عمران خان پشاورجاپہنچے اورعوام کوایک مرتبہ پھرجھوٹی تسلیاں دیں ،الیکشن ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی پرمتعددوزراء کوجرمانے ہوئے ،سپیکرقومی اسمبلی کی آڈیوٹیپ وائرل ہوئی جس میں وہ سترکروڑروپے تقسیم کرنے کے حوالے سے نمائندوں کوورغلارہے تھے،پی ٹی آئی کے وزاراء کی طرف سے کروڑوں روپے تقسیم کیے گئے ،جعلی سکیمیں دی گئیں مگر،تحریک انصاف نے وفاق میں تین سال سے زائد اور خیبر پختونخوا میں آٹھ سالہ اقتدار کے دوران جو بویا تھا وہ کاٹاہے۔

ہواوں کا رخ بڑی تیزی سے بدل رہا ہے۔ تبدیلی کی یہ لہر ایسے کرداروں کو بھی حوصلہ دے گی جو طاقت وروں کے خوف سے اس انتظار میں چپ بیٹھے تھے کہ کوئی انہیں اشارہ کرے تو وہ ہواوں کے رخ پر پرواز کریں پی ٹی آئی کوئی نظریاتی جماعت نہیں ہے یہ ایک ریوڑہے اس کے پنچھی آج یہاںہیں کل کہیں اورہوں گے ۔ خیبرپختونخوا کے عوام نے راستہ کھول دیا ہے اب تو صرف فیصلے کی گھڑی باقی ہے۔کے پی کے بلدیاتی الیکشن میں نمایاں بات یہ بھی رہی کہ اس میں کسی سیاسی جماعت نے اتحاد نہیں کیا بلکہ سب انفرادی طور پر ان مقابلوں کے لیے کمربستہ رہے۔اگراپوزیشن جماعتیں پی ڈی ایم کے پلیٹ فارم سے الیکشن میں حصہ لیتیں توشایدنتائج مزیدمختلف ہوتے ۔

مولانافضل الرحمن پہلے دن سے یہ کہہ رہے تھے کہ پی ٹی آئی کوعالمی منصوبے کے تحت صوبہ خیبرپختونخواہ کامذہبی تشخص کرنے کے لیے اقتداردیاگیاہے مگرکے پی کے عوام پی ٹی آئی کے جھانسے میں نہیں آئے اورعالمی بہی خواہوں کوبھی بتادیاہے کہ خیبرپختواہ سے مذہبی تشخص ،ان کی تہذیبی روایات،ان کی ثقافت کوتبدیل نہیں کیاجاسکتاخیبرپختواہ کے عوام ایک مرتبہ پھراصل کی طرف لوٹ رہے ہیں آئندہ الیکشن میںروایتی حریفوں یعنی کتاب اورلالٹین کامقابلہ ہوتانظرآتاہے پیپلزپارٹی نے روایتی منافقت کالبادہ نہ اتاراتوان کاحال اس سے بھی بدترہوگا پیپلزپارٹی تمام ترقوت استعمال کرکے صرف ایک سیٹ جیت سکی ہے اورصوبے میں ساتویں پوزیشن پرآئی ہے ۔

Related Posts