جنگ بندی یا دھوکہ؟ امریکا اور ایران کے درمیان فریب پر مبنی اگلا مکالمہ

مقبول خبریں

کالمز

Ceasefire or a Smokescreen? The US-Iran Next Dialogue of Disillusions
جنگ بندی یا دھوکہ؟ امریکا اور ایران کے درمیان فریب پر مبنی اگلا مکالمہ
Israel-Iran War and Supply Chain of World Economy
اسرائیل ایران جنگ اور عالمی معیشت کی سپلائی چین
zia-2-1-3
بارہ روزہ جنگ: ایران اور اسرائیل کے نقصانات کا جائزہ

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

Ceasefire or a Smokescreen? The US-Iran Next Dialogue of Disillusions

ایران کی مزاحمت نے صدر ٹرمپ کے فتح کے وہم کو خاک میں ملا دیا ، حملوں کے چند دن بعد ہونے والی جنگ بندی ایک کامیاب سفارتکاری نہیں بلکہ صرف چہرہ بچانے کی کوشش (فیس سیونگ)محسوس ہوتی ہے جبکہ مشرق وسطیٰ اور یوکرین کی موجودہ صورتحال دنیا کو ایک کثیر القطبی نظام کی فوری ضرورت کی طرف دھکیل رہی ہے۔

جب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ ایران کی جوہری تنصیبات پر فضائی حملوں کو ایک “کامیابی” قرار دے کر خوشیاں منا رہے تھے ، تباہ شدہ سینٹری فیوجز اور دفن شدہ افزودگی مراکز کے دعوے کرتے ہوئے زمین پر موجود حقائق بالکل مختلف کہانی سنا رہے تھے۔

اسرائیل اور ایران کے درمیان اچانک جنگ بندی نے نہ صرف عالمی دفاعی ماہرین کو بلکہ بین الاقوامی میڈیا کو بھی حیران اور مشکوک کر دیا ہے۔ اگر یہ واقعی کوئی عسکری کامیابی تھی تو پھر فوری طور پر امن کی اپیل کیوں؟

اس کا جواب شاید ایران کی خاموش تیاریوں میں پوشیدہ ہے۔ معتبر ایرانی ذرائع اور خفیہ اطلاعات کے مطابق تہران کو ان حملوں کی پیشگی خبر تھی۔ افزودہ یورینیم اور جوہری ٹیکنالوجی کا حساس سامان پہلے ہی نامعلوم، محفوظ مقامات پر منتقل کر دیا گیا تھا جس کے باعث بیشتر فضائی حملے علامتی حیثیت کے حامل رہ گئے۔

جب یہ حقیقت سامنے آئی تو ٹرمپ کا جشن ماند پڑ گیا  میڈیا کی تنقید اور سیٹلائٹ تصاویر کے انکشافات نے اُن کے جذباتی بیانات کو گہنا دیا۔

یہ حملے، جو امریکی اور اسرائیلی افواج کی مشترکہ کارروائی تھے، بظاہر تو دھماکہ خیز اور پراثر دکھائی دیے لیکن فیصلہ کن ہرگز نہیں تھے۔ ایرانی فضائی دفاع مکمل طور پر غافل نہیں تھا۔ اگرچہ کچھ بنیادی ڈھانچے کو نقصان پہنچا لیکن ایران کی بحالی کی صلاحیت بدستور قائم ہے۔

نیٹو سے لے کر ایشیا کے ماہرین کا کہنا ہے کہ ان حملوں سے ایران کے جوہری پروگرام کو صرف چند ماہ کی تاخیر ہو سکتی ہے  سالوں کی نہیں۔ گویا حملے نے ایران کے طویل المدتی مقاصد کو چھوا بھی نہیں۔

اگر مقصد ایران کو جھکانے کا تھا، تو یہ کوشش الٹا پڑ گئی۔ تہران نے نہ صرف حملے برداشت کیے بلکہ بھرپور جوابی کارروائی کی امریکی فوجی اثاثوں کو نشانہ بنایا، بنیادی ڈھانچے کو نقصان پہنچایا اور واشنگٹن کے ناقابلِ تسخیر ہونے کے زعم کو نفسیاتی دھچکا پہنچایا۔ ٹرمپ کی حکمتِ عملی نے “چیک میٹ” تو نہیں کیا، البتہ انہیں سفارتی محاذ پر پسپائی پر مجبور کر دیا۔

چند دن بعد اعلان کردہ جنگ بندی کو کامیاب سفارتکاری کے بجائے محض ایک چالاکی سے بھرپور وقفہ کہا جا سکتا ہے۔ ایران، زخمی سہی مگر جھکا نہیں، عزتِ نفس کے ساتھ ڈٹا ہوا ہے۔ دوسری جانب امریکہ — جو عالمی سطح پر تنقید کی زد میں ہے اور کوئی واضح کامیابی حاصل نہ کر سکا — اب “مذاکرات” کی آڑ میں خود کو سنبھالنے کی کوشش کر رہا ہے۔

یہ امن نہیں یہ ایک ہائی اسٹیج پر لیا گیا وقفہ ہے۔ دونوں فریق اپنے پوزیشنز کو از سرِ نو ترتیب دے رہے ہیں، اپنے تنازعات حل نہیں کر رہے۔ ایران نے امریکہ و اسرائیل کی جارحیت کے باوجود جس عزم و ہمت کا مظاہرہ کیا ہے، وہ یہ پیغام دیتا ہے کہ اب یہ ملک پابندیوں اور حملوں کے سائے میں کیے گئے معاہدے قبول کرنے کو تیار نہیں۔

اب جو آئندہ مذاکرات ہونے جا رہے ہیں، ان سے کسی حقیقی امید کی توقع نہیں۔ نہ ہی ہونی چاہیے۔ اعتماد کی کمی صرف تہران اور واشنگٹن کے درمیان نہیں بلکہ عالمی برادری بھی اب امریکی سفارتکاری اور اس کی اخلاقی ساکھ پر یقین کھو چکی ہے۔

ٹرمپ کے غیر متوازن رویے، آمرانہ رجحانات کی حمایت، اور عسکری سفارتکاری نے امریکہ کو اس کے پرانے اتحادیوں سے بھی دور کر دیا ہے۔ خاص طور پر اسرائیل کی جانب سے غزہ میں جاری نسل کشی کی کھلی حمایت نے عالمی رائے عامہ کو مزید برگشتہ کر دیا ہے۔

غزہ آج کی انسانیت کا کسوٹی بن چکا ہے۔ ایک انسانی المیہ سب کے سامنے پیش آ رہا ہے جان بوجھ کر کی گئی بھوک، پانی کی قلت، طبی امداد کی بندش، اور انسانی ہمدردی کی امداد کی راہ میں رکاوٹیں۔ یہ سب “حادثاتی نقصان” نہیں یہ باقاعدہ نسل کشی ہے۔ ایک جدید ہولوکاسٹ، جو خاموشی اور عالمی منافقت کے سائے میں وقوع پذیر ہو رہا ہے۔

ایران عشروں سے امریکی و اسرائیلی جارحیت کا سامنا کر رہا ہے۔ معاشی پابندیوں سے لے کر ٹارگٹ کلنگ، سائبر حملے، اور فوجی گھیراؤ تک تہران کی مکمل دفاعی حکمت عملی اسی بقاء کی جبلت کے تحت پروان چڑھی ہے۔ یہ حالیہ فضائی حملے محض ایک اور باب ہیں اس طویل، تلخ داستان کے۔

ایران کی جوابی کارروائیاں امریکی اڈوں پر غیرمعمولی درستگی سے میزائل حملے صرف غصے کا اظہار نہیں تھیں۔ وہ منصوبہ بند، علامتی اور سٹریٹیجک پیغام تھیں۔ تہران نے نہ صرف انکار کیا بلکہ بالغ نظری کا مظاہرہ بھی کیا۔ یہ لیبیا نہیں، یہ عراق نہیں۔ ایران نے ثابت کر دیا کہ وہ آسان شکار نہیں۔

ٹرمپ انتظامیہ کو امید تھی کہ یہ حملے ایران کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کر دیں گے۔ ہوا اس کے برعکس۔ ان حملوں نے ایران کی مزاحمت کو اخلاقی جواز دیا اور امریکی جارحیت کے بیانیے کو دنیا بھر میں بے نقاب کر دیا۔ یہ جنگ بندی دراصل ناکامی کا اعتراف ہے ایک مجبوری، ایک وقتی وقفہ کیونکہ امریکہ اب اس جنگ کو مزید نہیں چلا سکتا۔

اگر دنیا اس دائرۂ انتقام و تشدد سے نکلنا چاہتی ہے تو صرف حکمت عملی ہی نہیں، بلکہ عالمی طاقت کے ڈھانچے میں بھی تبدیلی ضروری ہے۔ اب یہ بات روزِ روشن کی طرح عیاں ہے کہ امریکی یکطرفہ بالادستی کا دور ختم ہو چکا ہے۔ دنیا ایک غیر متوازن سپر پاور پر انحصار نہیں کر سکتی۔ کثیر القطبی نظام اب خواب نہیں ضرورت بن چکا ہے۔

چین، روس، اور دیگر ہم خیال ممالک کو آگے آنا ہو گا، محض مغرب کے مقابل طاقت کے طور پر نہیں بلکہ دنیا میں استحکام پیدا کرنے والی قوتوں کے طور پر۔ اگر انسانیت کو بچانا مقصد ہے، تو ایک نیا، متوازن اور باہمی احترام پر مبنی عالمی نظام ناگزیر ہے۔ ایک ایسا نظام جو خودمختاری کا احترام کرے، مظلوموں کا دفاع کرے، اور جارحیت کرنے والوں کو خواہ کسی اتحاد سے وابستہ ہوں، جواب دہ بنائے۔

عالمی جنوب جو طویل عرصے سے مغربی سامراجی سازشوں کا شکار رہا اب جاگ رہا ہے۔ ایشیا، افریقہ، اور لاطینی امریکہ کے ممالک اب مغرب کے مہرے بننے سے انکار کر رہے ہیں۔ وہ نئے اتحاد، نئے معاشی ماڈل اور انصاف پر مبنی عالمی نظام کی تلاش میں ہیں۔

وقت آ گیا ہے کہ چین، روس، ترکی، برازیل، جنوبی افریقہ اور دیگر ممالک تیزی اور فیصلہ کن انداز میں میدان میں آئیں۔ فوجی اتحاد اور معاشی دباؤ کی جگہ اب معاشی راہداریوں، امن مشنوں، سفارتی اقدامات اور کثیر الجہتی پلیٹ فارمز کو لینی چاہیے۔ اب مستقبل اس قوم کا نہیں جو سب سے بڑا بم رکھتی ہو، بلکہ اس کا ہے جو سب سے بڑی میز پر سب کو بٹھا سکے۔

امریکہ اب شرائط نہیں تھوپ سکتا۔ یہ دور گزر چکا ہے۔ ایران نے امریکی چال کو بے نقاب کر دیا ہے۔ عالمی جنوب بیدار ہو چکا ہے۔ غزہ لہو میں نہا رہا ہے۔ فلسطین چیخ رہا ہے۔ اسرائیل رسوا ہو چکا ہے۔ ٹرمپ بے اثر ہو چکا ہے۔ اور ایران اب بھی کھڑا ہے — زخموں کے ساتھ، مگر سربلند۔

تو تیار رکھو اپنے گھوڑے، جیسا کہ ایرانی کہاوت ہے یہ سفارتکاری کے جلوس کے لیے نہیں، بلکہ مشرق وسطیٰ کے اس غیر یقینی شطرنجی کھیل میں اگلے غیر متوقع موڑ کے لیے۔ کیونکہ اس نئے عالمی نظام میں نہ کچھ یقینی ہے، نہ کچھ معاف کیا جاتا ہے۔

اگر دنیا واقعی انسانیت کو بچانا چاہتی ہے تو اسے ماننا ہو گا کہ مستقبل کثیر القطبی، انصاف پسند اور تعاون پر مبنی دنیا کا ہے۔ باتوں کا وقت ختم ہو چکا ہے۔ اب عمل کا وقت ہے۔

Related Posts