اسرائیل اور حزب اللہ کے درمیان طویل کشیدگی کے بعد جنگ بندی معاہدے پر بدھ کی صبح 4 بجے سے عملدرآمد شروع ہوگیا ہے۔ ایک سال سے جاری اسرائیلی جارحیت میں 3754 لبنانی جاں بحق اور 15626 زخمی ہو گئے، جن میں بڑی تعداد بچوں اور خواتین کی ہے۔
اسرائیل نے کئی بڑی کامیابیاں حاصل کرنے کا دعویٰ کیا ہے، جن میں حزب اللہ کے رہنما حسن نصراللہ اور دیگر اعلیٰ رہنماؤں کو قتل کرنا اور اس کی بنیادی ڈھانچے کو بڑے پیمانے پر تباہ کرنا شامل ہے۔
اس کے باوجود حزب اللہ کے جنگجوؤں نے زبردست مزاحمت کا مظاہرہ کیا، جس سے اسرائیل کی پیش قدمی سست ہوگئی۔ اسرائیلی چینل 12 نے انکشاف کیا ہے کہ حزب اللہ کے ساتھ جنگ میں ستمبر سے شدت آئی، اس کے بعد اب تک 124 اسرائیلی ہلاک ہو چکے ہیں، جن میں 79 فوجی شامل ہیں۔
حزب اللہ کے حملوں کے نتیجے میں اسرائیل میں 22715 مرتبہ سائرن بجے، جن میں سے 16198 بار راکٹ حملوں اور 6517 ڈرون حملوں کی وجہ سے تھے۔ عبرانی اخبار یدیعوت احرونوت کا کہنا ہے کہ جائیداد ٹیکس کے اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ حزب اللہ کی گولہ باری کی وجہ سے شمالی اسرائیل میں 9000 سے زائد عمارتیں اور 7000 گاڑیاں مکمل طور پر تباہ ہو چکی ہیں۔
اسرائیلی حکومت نے اب تک عوامی نقصان کے معاوضے کے طور پر 140 ملین شیکل (38.4 ملین ڈالر) ادا کیے ہیں اور توقع کی جا رہی ہے کہ نقصان کی وجہ سے یہ رقم مزید بڑھ جائے گی۔ عبرانی میڈیا اس بات کی تصدیق کرتا ہے کہ لبنان سے متصل اسرائیل کے مقبوضہ علاقوں میں تمام عمارتیں تباہ ہوچکی ہیں۔ یہاں اب ایک گھر بھی ایسا نہیں ہے جو رہائش کے قابل ہو۔
چینل 13 کے ایک سروے کے مطابق 61 فیصد اسرائیلی سمجھتے ہیں کہ ان کا ملک حزب اللہ کے خلاف جنگ ہار گیا ہے، جبکہ 66 فیصد نے غزہ میں جنگ بندی کے لیے قیدیوں کے تبادلے کی ڈیل پر اتفاق کیا۔ طے پانے والے معاہدے کے تحت 60 دنوں کے اندر اسرائیلی فوج کے انخلا اور حزب اللہ کے جنوبی لبنان کے بڑے علاقے سے مسلح وجود کے خاتمے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔
امریکہ کے سبکدوش ہونے والے صدر جو بائیڈن نے کہا کہ یہ معاہدہ “مستقل جنگ بندی کے لیے بنایا گیا ہے۔” معاہدے کے تحت لبنان میں دریائے لیطانی کے جنوب میں لبنانی فوج اور اقوام متحدہ کی امن فوج (یونفیل) کے ہزاروں اہلکار تعینات کیے جائیں گے۔ ایک بین الاقوامی کمیٹی، جس کی قیادت امریکہ کرے گا، تمام فریقوں کی جانب سے معاہدے پر عمل درآمد کی نگرانی کرے گی۔
حزب کے نائب صدر محمود قماطی نے الجزیرہ کو بتایا کہ اس معاہدے پر پارٹی کی حمایت اس بات پر منحصر ہے کہ اسرائیل دوبارہ حملے نہیں کرے گا۔ ہم معاہدے کا جائزہ لینے کے بعد دیکھیں گے کہ آیا ہماری شرائط کے مطابق عمل ہو رہا ہے کہ نہیں۔ حزب اللہ کا اصرار ہے کہ جب تک غزہ میں جنگ ختم نہیں ہوگی، وہ اسرائیل پر حملے جاری رکھے گا۔ جبکہ اسرائیل نے دھمکی دی ہے کہ حزب اللہ کی جانب سے معاہدے کی خلاف ورزی پر ردعمل سخت ہوگا۔
ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اسرائیل نے لبنان اور غزہ کے جنگ و امن کے معاملات کو دو مختلف امریکی انتظامیہ کے سپرد کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے: ایک جانے والی بائیڈن حکومت کو اور دوسری آنے والی ٹرمپ انتظامیہ کو۔ لبنان عالمی ایجنڈے، بالخصوص واشنگٹن، پیرس اور دیگر بین الاقوامی دارالحکومتوں کے ایجنڈے پر ترجیحی حیثیت رکھتا ہے، جبکہ غزہ کی تباہ کن جنگ، جو چودہ ماہ سے جاری ہے، ٹرمپ اور ان کی ٹیم پر چھوڑ دی گئی ہے۔
اسرائیلی حکومتی اتحاد کے تمام جماعتوں کے درمیان تقریباً اتفاق رائے پایا جاتا ہے کہ لبنان کے معاملے پر معاہدے کو قبول کر لیا جائے، حتیٰ کہ ایتمار بن گویر جیسے شدت پسند رہنما، جو غزہ کی جنگ بندی کے ہر موقع پر حکومت سے علیحدگی کی دھمکی دیتا ہے، اس نے اگر زبانی مذمت تو کی، لیکن حکومت سے الگ ہونے کی دھمکی نہیں دی۔ یہ اتفاق رائے اس حقیقت سے جڑا ہوا ہے کہ لبنان اور غزہ کی جنگوں کے اہداف مختلف ہیں۔
لبنان کے معاملے میں، اسرائیل اپنی توقعات اور اہداف کو محدود کر سکتا ہے، جیسے حزب اللہ کو شمالی لیطانی تک محدود کرنا، اس کے ہتھیاروں کی نگرانی سخت کرنا اور شام کے ذریعے آنے والے اسلحے کی رسد پر پابندیاں عائد کرنا۔ لبنان میں یہ کم توقعات اور محدود اہداف اسرائیل کو سیاسی اور عسکری لحاظ سے زیادہ قابل قبول محسوس ہوتے ہیں۔
غزہ کے معاملے میں صورتحال زیادہ پیچیدہ اور الجھی ہوئی ہے اور اس کا تعلق اسرائیل اور فلسطین دونوں کے مستقبل سے ہے۔ یہ درست ہے کہ اسرائیل، حزب اللہ کے خلاف جنگ کے آغاز میں حاصل ہونے والی بڑی کامیابیوں سے حوصلہ پاکر اپنے اہداف کو وسیع اور توقعات کو بلند کر چکا تھا، یہاں تک کہ وہ حزب اللہ کو مکمل طور پر تباہ کرنے، اسے غیر مسلح کرنے اور لبنانی سیاسی نظام کو دوبارہ تشکیل دینے کا منصوبہ بنا رہا تھا تاکہ پورے مشرقِ وسطیٰ کی نئی ترتیب کی راہ ہموار کی جا سکے اور لبنان کی زمین و فضا میں “کھلی چھوٹ” برقرار رکھی جا سکے لیکن یہ بھی سچ ہے کہ جیسے ہی حزب اللہ نے اپنی قیادت کی تنظیم نو، شدید صدمات کو برداشت کرنے اور مختلف رینج کے میزائل دوبارہ فائر کرنے کی صلاحیت بحال کر لی، یہاں تک کہ تل ابیب اور اس کے جنوبی علاقوں کو نشانہ بنایا، ساتھ ہی سرحدی دیہات اور قصبوں میں شدید لڑائی کا سامنا کیا، اس کے ساتھ ساتھ اسرائیل کے اہداف سکڑنے لگے۔
اب صورتحال یہ ہو گئی کہ 1701 قرارداد کی طرف واپس جانا ضروری ہو گیا، لیکن اس مرتبہ زیادہ سخت نگرانی اور سختی کے ساتھ۔ پھر یہ کہ لبنان، غزہ کے برعکس، ایک خودمختار ریاست ہے اور مغربی و عرب حکومتوں کے ساتھ وسیع تعلقات رکھتا ہے۔ اس کی ایک آزاد وجود کے طور پر بقا، ان ممالک اور دارالحکومتوں کی اہم ترجیح ہے۔ جبکہ غزہ کی سرزمین، اس کے عوام اور اس کا مسئلہ بحث کی میز پر موجود ہیں۔
اس پر ہونے والی جنگ کے نتائج بڑی حد تک فلسطینی-اسرائیلی تنازعے کے مختلف معاملات اور مسائل کے حل پر منحصر ہیں۔ اسرائیل کے لیے ممکن ہے کہ وہ لبنانی محاذ پر حاصل شدہ کامیابیوں پر اکتفا کرے، کم از کم متوقع نقصانات سے بچنے کے لیے، خاص طور پر جب مزاحمت نے دوبارہ اپنی توانائی بحال کر لی ہے۔
اس کے برعکس، غزہ میں اسرائیل کی توقعات اس سے کہیں زیادہ ہیں۔ وہ ایسے نتائج چاہتا ہے جو نہ صرف غزہ بلکہ مغربی کنارے، یروشلم اور فلسطینی عوام کے مستقبل، ان کے حقوق اور ان کی قومی جدوجہد کو بھی متاثر کریں۔ بائیڈن کی سبکدوش ہوتی انتظامیہ نے جنوبی محاذ پر اسرائیلی جنگ کی پیچیدگیوں کو سمجھتے ہوئے، اس بھاری بھرکم مسئلے کو آنے والی ٹرمپ انتظامیہ کے لیے چھوڑنے کا فیصلہ کیا اور اپنا پورا زور شمالی محاذ پر لگا دیا، تاکہ اپنی مدت کے آخری لمحات میں کوئی “کامیابی” حاصل کر سکے۔
یہی وہ بات ہے جس کا بائیڈن نے چند دن پہلے خود حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ اس کی انتظامیہ لبنان کو اولین ترجیح دے رہی ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ یہ موقف نومنتخب صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے لیے بھی موزوں ثابت ہوا، یہاں تک کہ انہوں نے اپنی حکومت کی تشکیل کے عمل میں مصروف ہونے کے باوجود، بائیڈن کے نمائندے آموس ہوک سٹین کو “گرین سگنل” دیتے ہوئے ہوک سٹین کو اپنی مہم جاری رکھنے اور دونوں انتظامیہ (سبکدوش اور آنے والی) کی جانب سے بات کرنے کا اختیار دے دیا۔
اس نے نمائندے کی اہمیت اور اثر و رسوخ کو مزید بڑھا دیا، حالانکہ وہ اس سے پہلے کئی بار خطے کا دورہ کر چکا تھا، مگر بغیر کسی کامیابی کے۔ دوسری جانب، لبنان ایک وحشیانہ جارحیت کے دباؤ میں جی رہا ہے، جس کی انسانی قیمت انتہائی زیادہ ہے، خاص طور پر حزب اللہ کے زیرِ اثر علاقوں میں۔ حالیہ نقصان جولائی 2006 کی جنگ میں ہونے والے نقصانات کے مقابلے میں کئی گنا زیادہ ہے۔
اسی طرح، حزب اللہ جس نے اپنے پہلی اور دوسری صف کے زیادہ تر رہنما کھو دیئے ہیں، اب شدید ضرورت محسوس کرتی ہے کہ وہ سانس لینے کا موقع حاصل کرے اور اس وحشیانہ جنگ کے بعد کی ضروریات سے نمٹے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ حزب اللہ ان باتوں کو قبول کرنے کے لیے تیار ہوگئی جنہیں پہلے وہ قبول کرنے پر آمادہ نہ تھی۔
ان میں سرِ فہرست وہ رعایت ہے جس کا اظہار حزب اللہ نے کیا ہے، یعنی لبنان کی محاذ کو غزہ کی محاذ سے الگ کرنا اور قرارداد 1701 کی شقوں کی اس قدر سنجیدگی سے پابندی کرنا جو 2006 سے اب تک کے عرصے میں کبھی نہیں کی گئی۔ لبنان میں اس بات پر ایک نادر اتفاق رائے پایا جاتا ہے کہ ملک پر جاری تباہ کن جارحیت کو روکا جائے۔
حزب اللہ کے حلیف “شیعہ دُوئی” کے ایک ستون اور پارلیمنٹ کے اسپیکر نبیہ بری نے، حزب اللہ اور مزاحمت کی جانب سے مذاکرات کی ذمہ داری سنبھالی ہے۔
اس کے برعکس، غزہ میں حماس اور مزاحمت کو ایسا کوئی “نبیہ بری” نہیں ملا، جو مزاحمت کی جانب سے رابطہ کاری کرے، اس کا مؤقف پیش کرے اور اس کا دفاع کرے۔ ایسے اختلاف نے حماس کو مکمل طور پر “ثالث” پر انحصار کرنے پر مجبور کر دیا، کیونکہ اس نے رسمی (قانونی) اداروں میں سے کوئی ایسا شخص نہیں پایا، جو اس کی نمائندگی کرے یا اس کے مؤقف اور عوام کے مفادات کا دفاع کرے۔
اس کے علاوہ، کچھ اطلاعات سے ظاہر ہوتا ہے کہ بین الاقوامی فریقوں نے امریکی اور اسرائیلی طرفین کے ساتھ ثالثی کی کوششوں اور “خیر سگالی” کی مداخلت میں کردار ادا کیا، تاکہ “نیتن یاہو کے مسائل” کو حل کیا جا سکے، جو گزشتہ ستمبر میں امریکی- فرانسسی تجویز کو عملی شکل دینے میں رکاوٹ بنے تھے۔