کارگو انڈسٹری کی قسمت

مقبول خبریں

کالمز

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

پاکستان میں کارگو سروسز انڈسٹری نے گزشتہ دو دہائیوں میں دیگرصنعتوں کے مقابلے میں کئی نشیب فراز دیکھے ہیں۔ پاکستان میں کام کرنے والی تمام کمپنیوں کے ذریعہ کارگو خدمات کا معیار چاہے وہ مقامی ہو یا بین الاقوامی ہمیشہ سے اچھا رہا ہے۔

بہت ساری مقامی اور ملٹی نیشنل کمپنیوں کے درمیان سخت مقابلہ کی وجہ سے کارگو سروس کمپنیاں مسابقت برقرار رکھنے کیلئے معاوضوں میں کمی کے باوجود مناسب منافع کما رہی ہیں کیونکہ اس شعبے کی آپریشنل لاگت اتنی زیادہ نہیں ہے ۔

کارگو سروس کمپنیوں نے بلا شبہ کارپوریٹ کے ساتھ ساتھ انفرادی سطح پر بھی عمدہ خدمات انجام دی ہیں لیکن گذشتہ چند سالوں میں کورئیر کی قیمتوں میں غیر معمولی اضافے کی وجہ سے کارگو انڈسٹری کو متاثر ہوئی ہے۔

قیمتوں کے تعین کے حوالے سے ایک چیز اب بھی بہت مثبت ہے کہ پاکستان میں کارگو کی قیمتیں سعودی عرب جیسے ممالک کے مقابلے میں بہت کم ہیں ۔ سعودی عرب میں صرف ایک دستاویز پاکستان بھجوانے کے 15 ہزار روپے لگتے ہیں ،یہاں تک کہ سعودی کورئیر کے معاوضے پاکستان میں مقامی کورئیر کے معاوضوں سے پانچ گنا زیادہ ہیں۔

جی سی سی ممالک جن میں خاص طور پر سعودی عرب میں کورئیر کی آپریشنل لاگت پاکستان کے مقابلہ میں بہت کم ہے لیکن یہاں کی قیمتیں بہت زیادہ ہیں جو اس بات کی نشاندہی کرتی ہیں کہ جی سی سی کی کورئیر سروس کمپنیاں بہت زیادہ منافع کما رہی ہیں۔

اگر ہم پاکستان میں پوری کورئیر کی صنعت دیکھیں تو پچھلے 25 سالوں میں بہت سی کمپنیاں مارکیٹ میں داخل ہوگئیں جس نے مارکیٹ میں مقابلے کے رجحان کو جنم دیا اوراس سے صارفین کو قیمتوں کے ساتھ ساتھ خدمت کے معیار میں بھی فائدہ ہوا ہے اور ملازمت کے مواقع بھی پیدا ہوئے ہیں۔

کوریئر کے کام میںبروقت ترسیل کی سب زیادہ اہمیت ہوتی ہےاورپاکستان میں کارگو خدمات پہلے سے بہتر ہوگئی ہیں اور بروقت سامان کی ترسیل میں ناکامی کا امکان بہت کم ہے لیکن پھر بھی کچھ علاقوں میں بہتری کی گنجائش موجود ہے۔

پاکستان کے کچھ علاقوں میں کورئیر کی فراہمی میں ایک ہفتہ بھی لگتا ہے۔ مجھے یاد ہے کہ پچھلے سال میں نے ایک سامان کورئیر کے ذریعے گلگت بھیج کر یہ سمجھا تھا کہ یہ زیادہ سے زیادہ دو دن میں پہنچ جائے گا لیکن یہ دیکھ کر حیرانی ہوئی کہ یہ کورئیر ایک ہفتے کے بعد پہنچا ہے۔

عوام کوکورئیر کی کمپنیوں کی طرف سے تیزی سے سامان کی فراہمی کی توقع ہوتی ہے لیکن جب کورئیر سروس مقررہ وقت میں سامان پہنچانے میں ناکام ہوجاتی ہے تو کورئیر سروس کا بنیادی مقصد ختم ہوجاتا ہے۔

ایک اور بات جو میں نے محسوس کی وہ کورئیر سروس کے عملے کی تربیت ہے،کارگو سروس کمپنیاں عملے کی تربیت اور ترقی پر خرچ نہیں کرتیں۔
کورئیر سروس کمپنیاں انسانی وسائل کی تربیت کے لئے بجٹ مختص کرنے سے گریزاں ہیں کیونکہ ان کے دبے ہوئے مارجن کی وجہ سے انہیں خدمات کے معیار کو بہتر بنانے کے لئے اپنے سالانہ بجٹ میں رقم مختص کرنی چاہیے۔

پاکستان میں کمپنی کو نفع ہو یا نقصان کارگو خدمات پرآمدن کا8 فیصد ٹیکس ادا کرنا پڑتا ہے ، میری رائے میں اس کا جواز پیش نہیں کیا جاسکتا ہے کیونکہ اس صنعت میں 15 فیصد سے زیادہ کاروبار نہیں ہے اور حکومت نے 8 فیصد ٹیکس کی شرح عائد کردی ہے جس کا مطلب ہے کہ کارگو سروس کمپنی کو 50٪ سے زیادہ ادائیگی کرنا پڑتی ہے ۔

جب ہم کارگو خدمات پر عائد ٹیکسوں کا موازنہ جی سی سی ممالک سے کرتے ہیں تو ان میں سے بیشتر ممالک میں کارگو خدمات ٹیکس فری ہے لیکن جب ہم اس کا موازنہ یورپ اور امریکہ کے ساتھ کرتے ہیں تو پاکستان کی طرح کاروبار پر ٹیکس خالص منافع پر ہوتا ہے اور یورپی کارگو سروس کمپنیوں کو ٹیکس کی ادائیگی میں کسی پیچیدگی کا سامنا نہیں کرنا پڑتا۔ پاکستان کو کارگو سروس کمپنیوں کے ٹیکس کی شرح کو معقول بنانے کی ضرورت ہے تاکہ صنعت ترقی کرے اور روزگار اور جی ڈی پی میں اضافے میں مدد ملے۔

کورئیر کی معیار اور بروقت فراہمی کے لئے روڈ نیٹ ورک کلیدی عوامل میں سے ایک ہے۔ پاکستان کی کارگو سروس کمپنیوں کے معاملے میں یہ ان کے لئے تکلیف دہ عنصر رہا ہے کیونکہ بین الاقوامی معیار کے مطابق سڑک کا بنیادی ڈھانچہ اتنا اچھا نہیں ہے کہ بروقت سامان کی ترسیل ممکن ہوسکے۔

ہم موجودہ حکومت کو اپنے دور اقتدار کے ان اٹھارہ مہینوں میں سڑکوں کے بنیادی ڈھانچے میں سرمایہ کاری نہ کرنے کا الزام عائد نہیں کرسکتے ہیں ،لیکن کارگو صنعت کو مایوس ہونے کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ ہم توقع کرتے ہیں کہ آئندہ تین سالوں میں حکومت اس شعبے پر توجہ دے گی۔

پاکستان میں سامان کی نقل و حمل کے لئے تقریباً 70 فیصد روڈ نیٹ ورک کا استعمال ہوتا ہے اور صرف 30 فیصد ریل نیٹ ورک استعمال ہوتا ہے۔اب جب کہ سرجری تقریباً مکمل ہوچکی ہے اور علاج کا وقت شروع ہوچکا ہے ، ہم پوری طرح پر امید ہیں کہ روڈ نیٹ ورک میں بہتری آئے گی۔ یہ نہ صرف کارگو صنعت کے لئے اہم ہے بلکہ یہ پوری معیشت کے لئے لائف لائن ہے ۔

Related Posts