نگران وزیر اعظم

مقبول خبریں

کالمز

"Conspiracies of the Elites Exposed!"
سرمایہ داروں کی خوشحالی، عوام کی غربت، پاکستان کی معیشت کا کھلا تضاد
Munir-Ahmed-OPED-750x750-1
پرتگال اور پاکستان کے درمیان 75 سالہ خوشگوار سفارتی تعلقات
Munir-Ahmed-OPED-750x750-1
دھوکا دہی کے بدلے امن انعام؟

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

نگران وزیراعظم کون بنے گا اس پر قیاس آرائیاں بالآخر ختم ہوگئیں۔ سینیٹر انوار الحق کاکڑ کو عبوری وزیر اعظم کے طور پر منتخب کر لیا گیا ہے اور وہ اس عہدہ کی ذمہ داریاں سنبھالیں گے۔

سبکدوش ہونے والے وزیر اعظم اور اپوزیشن لیڈر کے درمیان اہم تقرری پر اتفاق رائے کے بعد قدرے متوقع فیصلہ کیا گیا۔ گزشتہ چند ہفتوں سے یہ قیاس آرائیاں جاری تھیں کہ اس عہدے پر کسی سیاستدان کو تعینات کیا جائے گا۔ اپوزیشن لیڈر راجہ ریاض کا دعویٰ ہے کہ انہوں نے کاکڑ کا نام تجویز کیا اور وزیراعظم نے قبول کرلیا، تاہم یہاں یہ بتانا ضروری ہے کہ راجہ ریاض پی ٹی آئی سے اختلاف کرنے کے بعد کسی سیاسی جماعت کے بغیر رہ گئے ہیں اور وہ محض ایک سیاسی رہنما ہیں۔ اس لیے یہ قیاس آرائی زوروں پر تھی کہ راجا ریاض دراصل طاقتور حلقوں کی نامزدگی کو ہی آگے بڑھائیں گے۔

اس کے ساتھ ہی حکومت نے حال ہی میں اشارہ دیا تھا کہ عبوری وزیر اعظم چھوٹے صوبے سے ہو سکتا ہے۔ اس سے یہ قیاس آرائیاں ہوئیں کہ نیا وزیراعظم سندھ یا بلوچستان سے ہوسکتا ہے۔ آخر کار تمام قیاس آرائیاں اپنے انجام کو پہنچیں اور نگران وزیر اعظم کا تقرر ہوگیا۔ اب ہمیں اس معاملے کو یہیں چھوڑ کر آگے کی طرف دیکھنا چاہیے۔

بتایا جاتا ہے کہ انوار الحق کاکڑ ایک غیر متنازعہ شخصیت ہیں اور سب کو قابل قبول ہوں گے۔ یہ واضح ہے کہ انوار الحق کاکڑ کا انتخاب غیر معمولی ہے۔ یہ شاید پہلی بار ہے کہ کسی حاضر سروس سینیٹر کو اس عہدے کے لیے منتخب کیا گیا ہے۔ وہ بلوچستان عوامی پارٹی (BAP) کے شریک بانی بھی ہیں، جو کہ 2018 میں قائم کی گئی۔

باپ 2018 کے انتخابات کے بعد بلوچستان کی سب سے بڑی جماعت بن کر ابھری اور مخلوط حکومت قائم کی۔ یہ جماعت مرکز میں پی ڈی ایم اتحاد کا بھی حصہ تھی جس نے 2022 میں عمران خان کو وزیر اعظم کے عہدے سے ہٹانے کے بعد حکومت کی۔

یہ واضح ہے کہ بطور وزیر اعظم کاکڑ کی سب سے بڑی ذمہ داری انتخابات کے انعقاد کو یقینی بنانا ہے۔ خدشات ہیں کہ انتخابات میں تاخیر ہو سکتی ہے۔ یہ ان کی ذمہ داری ہے کہ نہ صرف انتخابات کا بروقت انعقاد یقینی بنائیں بلکہ یہ بھی یقینی بنائیں کہ الیکشن آزادانہ، منصفانہ اور شفاف ہوں۔ موجودہ سیاسی ماحول میں یہ ایک مشکل کام ہو سکتا ہے تاہم اس کیلئے پر عزم رہنا ہوگا۔

سابق وزیراعظم عمران خان اس وقت جیل میں ہیں اور انہیں انتخابات سے روک دیا گیا ہے جبکہ ایک اور سابق وزیراعظم نواز شریف کی جلد وطن واپسی متوقع ہے۔ یہ دیکھنے کی ضرورت ہے کہ کیا نگراں وزیر اعظم سب جماعتوں کیلئے یکساں ہم آہنگ ماحول فراہم کرپائیں گے یا ان کا دور تنازعات سے دوچار ہو جائے گا۔ فی الحال پی ایم کاکڑ اپنے کندھوں پر بہت بڑی ذمہ داریاں لے کر آئے ہیں جسے انہیں اپنی بہترین صلاحیتوں کے ساتھ ادا کرنا ہوگا تاکہ اگلے انتخابات کی کوکھ  سے کوئی نیا تنازع اور فتنہ نہ جنم لے۔

Related Posts