ترک صدر رجب طیب اردگان کی جانب سے 10 مغربی سفراء کی ملک بدری کے فیصلے سے دستبرداری کے بعد ایک ممکنہ سفارتی بحران ٹل گیا ہے۔
اردگان نے دھمکی دی تھی کہ وہ امریکہ اور یورپی ممالک کے سفیروں کو ملکی معاملات میں مداخلت کرنے پرناپسندیدہ قرار دیکر ملک بدر کردینگے۔
اس وقت دیکھا جائے تو یورپی یونین اور ترکی کے درمیان تعلقات انتہائی مشکل دور سے گزررہے ہیں اور صدر رجب طیب اردگان کے دور حکومت میں تعلقات میں بہتری کی کوئی امید بھی نظر نہیں آتی۔ انقرہ 1987 سے یورپی یونین کا امیدوار ہے لیکن رکنیت کی کارروائی برسوں سے تعطل کا شکار ہے۔
گزشتہ جون میں فرانسیسی ایلچی نے صدر رجب طیب اردگان کو بتایا تھا کہ ان کا ایک پاؤں یورپی اور دوسرا روسی کیمپ میں نہیں ہو سکتا۔
نیٹو اور یورپی اتحادی اس وقت سے ناراض ہیں جب صدر رجب طیب اردگان نے ماسکو سے S-400 میزائل ڈیفنس سسٹم خریدا تھا۔
صدر رجب طیب اردگان کا اپنے ملک کا نظم و نسق چلانے کا اپنا الگ انداز ہے اور وہ اکثر تنہا فیصلے لینے کے لیے جانے جاتے ہیں۔
انہوں نے حال ہی میں شرح سود میں اضافے کے بعد سینٹرل بینک کے سینئر عہدیداروں کو برطرف کردیاتھا۔ اس کی وجہ سے لیرا کی قدر میں کمی اور مزید معاشی غیر یقینی صورتحال پیدا ہوئی۔
زوال پذیر سفارتی تعلقات بنیادی طور پر رجب طیب اردگان کی قیادت میں خارجہ پالیسی کی وجہ سےاس سطح پر پہنچے ہیں
فرانس اور ترکی کے درمیان حالیہ کچھ عرصے میں مخاصمت میں شدت آئی ہے جب ترک صدر نے پیغمبر اسلام ﷺکے گستاخانہ خاکوں پر سخت موقف اختیار کیا ۔انہوں نے مسلم ممالک کے درمیان خلیج کو ختم کرنے کی بھی کوشش کی۔
ترک صدر نے فرانسیسی صدر میکرون کے ساتھ آزادی اظہار رائے اور جوابی طور پر اسلامی انتہا پسندی سے نمٹنے کے لیے فرانسیسی منصوبہ بندی کی، اس بات کو اجاگر کیا کہ اسلامو فوبیا فرانس میں مسلمانوں کے لیے زندگی کو مشکل بنا رہا ہے۔
ترکی یونان کے ساتھ قبرص کے تنازعے پر طویل عرصے سے فوجی اور سیاسی تنازعات میں الجھاہوا ہے۔یورپی یونین نے ترکی یونان سرحدی تنازع پر یونان کی حمایت کی تھی۔ یونانی صدر نے حال ہی میں کہا تھا کہ طیب اردگان نے ’تہذیب کے تصادم‘ کے لیے مذہبی جنونیت کو ہوا دی۔
میں نے کبھی سفارتی میدان میں نہیں سنا کہ صورتحال اس نہج پر پہنچ سکتی ہے۔ایک بار جب اندرونی حالات خراب ہوتے ہیں تو بیرونی طاقتیں اس صورتحال کا فائدہ اٹھا کر مخالف جماعتوں کا ساتھ دیتی ہیں۔
ترکی کو جو سب سے بڑا خطرہ درپیش ہے وہ کمزور معیشت ہے کیونکہ لیرا اس وقت کئی برسوں میں اپنی کم ترین سطح پر پہنچ گیا ہے اور افراط زر بڑھ رہا ہے۔
گزشتہ چند سالوں کے دوران ترکی کے امریکہ اور یورپ کے ساتھ تعلقات ہنگامہ خیز رہے ہیں۔بڑھتی ہوئی محاذآرائی کے درمیان طیب اردگان نے صدر بائیڈن سے روم میں ملاقات کی اور بظاہر کشیدہ تعلقات کو بہتر بنانے پر اتفاق کیا۔
یہ دیکھنے کی ضرورت ہے کہ طیب اردگان کس حد تک ملک پر اپنی گرفت برقرار رکھتے ہیں اور کیا دونوں فریقوں کے درمیان تعلقات کو بہتر بنانے میں کوئی مثبت رویہ اختیار کیا جائے گا۔