برطانوی فرم براڈشیٹ نے نئے انکشافات کرکے ایک بڑے معاملے کو ہوا دے دی ہے جبکہ قبل ازیں سابق وزیرِ اعظم میاں نواز شریف پر صرف اتنا الزام تھا کہ انہوں نے تحقیقات روکنے کیلئے براڈ شیٹ کے مالک کو رشوت کی پیشکش کی۔ نئے انکشافات سے حکومت معاملے کی تفتیش کیلئے تحقیقات کے آغاز پر مجبور ہو گئی ہے۔
قومی احتساب بیورو (نیب) کا قیام سابق صدر جنرل (ر) پرویز مشرف کے عہدِ اقتدار کے دوران عمل میں لایا گیا اور نیب نے پاکستانی سیاستدانوں اور بیوروکریٹس کے غیر ملکی اثاثوں اور غیر قانونی دھن دولت کی تلاش کیلئے براڈ شیٹ نامی فرم کی خدمات حاصل کیں۔ نیب جو ذرائع استعمال کرتا ہے وہ آج بھی متنازعہ ہیں کیونکہ اپوزیشن الزام لگاتی ہے کہ نیب سیاسی انتقام لیتا ہے بلکہ اسے چڑیلوں کا شکار یا ڈائن ہنٹ بھی کہا جاتا رہا ہے۔ مشرف حکومت کے ذریعے 200 سے زائد نمایاں سیاسی شخصیات کو نشانہ بنایا گیا اور آج بھی بہت سے مقدمات نیب میں چل رہے ہیں۔
براڈ شیٹ سے ریاستی اداروں سے دھوکہ دہی سے لیے گئے فنڈز کا پتہ چلانے، تلاشی اور انتقال کیلئے رابطہ کیا گیا تھا تاہم یہ کمپنی فنڈز واپس لانے میں ناکام رہی۔ نیب نے براڈ شیٹ سے خدمات حاصل کرنے کے بعد اس کی فیس ادا کرنے سے انکار کردیا اور یہ معاملہ کئی سالوں تک التواء کا شکار رہا جب تک کہ لندن کی عدالت نے یہ فیصلہ نہ دے دیا کہ پاکستان کو 2 کروڑ 80 لاکھ کی رقم ادا کرنا ہوگی۔ معاہدے کی ذمہ داری کے طور پر شروع ہونے والا یہ معاملہ اب ایک سیاسی صورت اختیار کر چکا ہے۔
برطانوی فرم براڈ شیٹ کے مالک نے دعویٰ کیا ہے کہ شریف خاندان نے 2012ء میں ان سے رابطہ کیا اور تفتیش ختم کرنے کیلئے رشوت کی پیشکش کی۔ شریف خاندان نے سختی سے اِس الزام کی تردید کی ہے لیکن یہ بات واضح ہے کہ ایون فیلڈ اپارٹمنٹس کے قبضے کیلئے اس طرح کے حربے استعمال کیے جاسکتے ہیں۔
موجودہ حکومت کو براڈ شیٹ اپنی خدمات فروخت کرنے کی خواہش مند ہے تاکہ جائیدادوں کی چھان بین کی خدمات اسے سونپی جائیں تاہم حکومت اس عمل میں مزید دلچسپی لیتی دکھائی نہیں دیتی۔ حالیہ ادائیگی بھی حکومت نے روک رکھی ہے۔ ایک اور چونکا دینے والا انکشاف یہ سامنے آیا کہ براڈ شیٹ کے مالک کو ایک بینک اکاؤنٹ ملا جس میں 1 ارب ڈالر موجود تھے لیکن جس شخص سے 2018ء میں براڈ شیٹ کے مالک کی ملاقات ہوئی، وہ اکاؤنٹ کی تمام تر رقم کی بجائے صرف کمیشن میں دلچسپی رکھتا ہے۔ شہزاد اکبر نے اس بات کی تردید کی اور دعویٰ کیا کہ کمپنی نے کچھ بھی پیش کیے بغیر ایک نیا ہنگامہ کھڑا کردیا ہے۔
ضروری بات یہ ہے کہ براڈ شیٹ کے ذریعے ہونے والے تمام تر انکشافات پر صاف و شفاف تحقیقات عمل میں لائی جائیں اور حکومت کو معاملے کی گہرائی و گیرانی تک پہنچنا چاہئے۔ وزیرِ اعظم عمران خان نے بھی گزشتہ روز اپنے ٹوئٹر پیغام میں کہا کہ براڈ شیٹ کے انکشافات سے ایک بار پھر سابق حکمراں طبقات اور منی لانڈرنگ کے ذریعے بڑے پیمانے پر بدعنوانی ہوئی جو قوم کو درپیش سب سے بڑا خطرہ ہے۔
پاناما پیپرز کے بعد براڈ شیٹ انکشافات میں لوٹ مار کی دولت واپس لانے کا موقع سامنے آیا ہے جو تحریکِ انصاف کی حکومت کا اہم منشور رہا ہے۔ براڈ شیٹ کے انکشافات کی تحقیقات ضرور ہونی چاہئیں تاکہ غیر ملکی اثاثوں کی بازیابی کیلئے کوششیں کی جاسکیں۔