وفاقی حکومت نے کابینہ کی منظوری کے بعد براڈ شیٹ کمیشن کی رپورٹ عام کردی ہے،جسٹس(ر) عظمت سعید شیخ کی سربراہی میں 29 جنوری کو قائم کئے جانیوالے ایک رکنی کمیشن نے اپنی رپورٹ وزیراعظم آفس میں جمع کرا دی تھی۔
اس رپورٹ کیلئے کمیشن نے مجموعی طور پر 26 گواہان کے بیان ریکارڈ کیے ہیں، براڈشیٹ کمیشن کے مطابق تمام تفصیلات نیب کی دستاویزات سے ملیں جبکہ پاکستانی ہائی کمیشن لندن سے بھی ادائیگی کی فائل سے اندراج کا حصہ غائب ہونے کا انکشاف ہوا ہے۔
2000 میں نیب نے براڈ شیٹ کے ساتھ اثاثوں کی بازیابی کا معاہدہ کیا تھا جس کا مقصد پاکستانیوں کے دیگر ملکوں میں موجود غیر قانونی اثاثہ جات واپس پاکستان لے کر آنے میں معاونت کرنا تھا۔ غیرقانونی جائیداد کی فہرست میں تقریباً 200 افراد کا تعین کیا گیا تھا جنہیں ٹارگٹ کرکے پیسہ واپس لینا تھا۔
معاہدے کے تحت نیب کی جانب سے ریکور کیے گئے پیسوں میں سے 20 فیصد پیسہ براڈ شیٹ کو ملنا تھا۔2003 میں نیب کی جانب سے براڈ شیٹ کے ساتھ معاہدہ ختم کیے جانے کے بعد براڈ شیٹ نے نیب کے خلاف قانونی چارہ جوئی کا آغاز کیا تھا، 20 مئی 2008ء میں براڈ شیٹ کے ساتھ تصفیہ ہوااور براڈ شیٹ کو 15 لاکھ ڈالرز کی ادائیگی ہوئی ۔
سپریم کورٹ کے سابق جج جسٹس (ر) عظمت سعید شیخ پر مشتمل ایک رکنی کمیشن نے تحقیقات کے بعد 64؍ صفحات پر مشتمل رپورٹ تحریر کی ہے، انہوں نے اپنی رپورٹ میں لکھا ہے کہ بین الاقوامی کمپنیوں کی خدمات کے لئے ضروری بنیادی چیزیں یقینی بنائی جانی چاہئیں۔
کسی بھی غیر ملکی کمپنی کی خدمات لینے سے پہلے اس کی تصدیق کرائی جائے۔کمیشن کی جانب سے سفارش کی گئی ہے کہ وزارت خارجہ متعلقہ ملک کی وزارت خارجہ سے کمپنی کی تصدیق کرائے۔ کمپنی کی رجسٹریشن ، مالیاتی حیثیت اور مقدمے بازی کا معلوم کرایا جائے۔ اس کے علاوہ غیر ملکی کمپنیوں اور اداروں کی پاکستانی سرکاری اداروں تک کھلی رسائی کی حوصلہ شکنی ہونی چاہئے۔
جسٹس (ر) عظمت سعید شیخ اپنی رپورٹ میں لکھا کہ متعلقہ ریکارڈ کو چھپانے اور سامنے نا لانے کی ہرممکن کوشش کی گئی تاکہ موجودہ اور ان سے قبل کے سیاسی مستفید کنندگان کی کرپشن اور نااہلی پر پردہ ڈالا جاسکے۔ حیرت انگیز طور پر ایک سے زائد محکمے اور براعظم کا ریکارڈ کھوگیا اورصرف اسلام آباد ہی نہیں بلکہ لندن میں پاکستان کے ہائی کمیشن کا ریکارڈ بھی گم ہوگیا تھا۔
براڈ شیٹ معاملے نے پاکستانی نظام میں موجود نقائص کو ایک بار پھر پوری شدت سے بے نقاب کیا ہے اور جہاں اس رپورٹ سےجہاں کرپشن کے مقدمات دوبارہ کھولنے کے امکانات روشن ہوئے ہیں وہیں نیب کی بدانتظامی بھی کھل کر سامنے آئی ہے جبکہ اہم بات تو یہ ہے کہ رپورٹ بنانے والے جسٹس (ر) عظمت سعید لاہور ہائی کورٹ کے جج بننے سے قبل نیب کے خصوصی پراسیکیوٹر تھے اوراپنی ذمہ داری سے قطع نظر ان کے دور میں ہی نیب نے براڈشیٹ معاہدہ کیا تھا جس سے پاکستان کو بڑا نقصان اٹھانا پڑا۔
جسٹس (ر) شیخ عظمت سعید نے اپنی رپورٹ میں گیدڑ بھپکیوں کا حوالے دیکر معاملے کو سیاسی رنگ دینے کی کوشش کی ہے تاہم وہ اگر اس معاہدے میں اپنے کردار کی وضاحت بھی کردیتے تو بہتر تھا تاہم اب حکوت اس رپورٹ کو جواز بناکر محض دھمکیوں اور الزامات تک محدود رہنے کے بجائے ملک کے غریب عوام کا پیسہ لوٹنے اور پاکستان کی جگ ہنسائی کا سبب بنے والوں کو کیفر کردار تک پہنچانے کیلئے عملی اقدامات بھی اٹھائے۔