ملک بھر میں سیلاب کے باعث 1ہزار61افراد جاں بحق ہوئے، 349 افراد سندھ، 242 بلوچستان، پنجاب میں 168 جبکہ آزاد کشمیر میں 42 افراد جان کی بازی ہار گئے۔ ایک تخمینے کے مطابق ملکی معیشت کو کم و بیش 10 ارب ڈالرز کا نقصان ہوا جس میں اضافے کا خدشہ ہے۔
پاکستان پہلے ہی بھاری بھرکم قرضوں میں ڈوبا ہوا ہے جسے اپنے قرضوں کی اقساط بھی ادا کرنے کیلئے مزید قرض لینا پڑتا ہے۔ ایسے میں سیلاب کے باعث ہونے والی تباہ کاریوں نے ملکی معیشت کی کمر توڑ کر رکھ دی ہے۔
آج سے تقریباً 17 برس قبل جب 2005 کا زلزلہ آیا تو ملک بھر میں زلزلہ پروف عمارات کے فقدان کا مسئلہ سامنے آیا۔ حیرت انگیز طور پر ملک بھر میں زلزلے سے بچاؤ کیلئے کسی بھی قسم کے اقدامات نہیں کیے گئے تھے۔
تاہم پاکستان کی کسی حکومت نے زلزلے سے بھاری بھرکم جانی و مالی نقصان سے بھی کچھ نہیں سیکھا۔ ماحولیاتی تبدیلیوں سے سیلاب کے خدشے سے بھی 2 ماہ قبل خبردار کیے جانے کے باوجود کوئی اقدامات نہ اٹھائے گئے۔
بلاشبہ ترکی، عرب امارات اور دیگر مسلم ممالک پاکستان کی امداد کیلئے پیش پیش ہیں اور مغربی ممالک بھی سیلاب زدگان کی امداد کیلئے آگے آرہے ہیں تاہم پاکستان کو پہنچنے والا نقصان تمام تر امداد کے مقابلے میں کہیں بڑا ہے۔
اپنے حالیہ بیان میں وزیر اعلیٰ بلوچستان عبدالقدوس بزنجو کا کہنا تھا کہ حالیہ بارشوں اور سیلاب نے صوبے میں بڑی تباہی مچائی۔ لوگوں کو دوبارہ پاؤں پر کھڑا ہونے میں 25سال لگ جائینگے۔ صوبے میں 200ارب سے زائد کا نقصان ہوا۔
آج سے 2 روز قبل آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے خیر پور اور قمبر شہداد کوٹ کا دورہ کیا۔ اس موقعے پر گفتگو کرتے ہوئے آرمی چیف کا کہنا تھا کہ متاثرہ علاقوں کو ٹھیک ہونے، ریلیف اور بحالی میں کئی سال لگ جائیں گے۔
آرمی چیف نے کہا کہ کوشش کے باوجود وفاقی و صوبائی حکومت اور مسلح افواج کے وسائل محدود ہیں، مخیر حضرات کو سامنے آنا ہوگا اور جیسے چاہیں سیلاب زدگان کی مدد کریں۔ معاونت سے ہی بحالی کا کام بہتر طور پر ہوسکے گا۔
دوسری جانب ملک کو دی جانے والی امداد میں خرد برد اور کرپشن کے امکانات بھی نظر انداز نہیں کیے جاسکتے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ حکومت بیرونِ ملک اور دیگر ذرائع سے آنے والی امداد کی سیلاب زدگان تک جلد از جلد اور صاف و شفاف ترسیل یقینی بنائے۔