پی ٹی آئی کو ان کا ہی تو انتظار تھا لیکن، آئینی ترمیم کے بعد جسٹس منصور علی شاہ کا چیف جسٹس بننا کیوں مشکل؟ بلاول بھٹو سچ زبان پر لے آئے

مقبول خبریں

کالمز

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

اسلام آباد: 26 ویں آئینی ترمیم کے بل کی منظوری کے لیے اتوار کی رات بلائے گئے قومی اسمبلی کے اجلاس کے دوران اپنی شعلہ انگیز تقریر میں پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو نے کہا کہ عدلیہ نے آمریت کے تحفظ میں فرنٹ لائن کا کردار ادا کیا اور آمروں کے دور کو طول دینے میں اس کا کردار کسی سے ڈھکا چھپا نہیں۔

پی پی پی چیئرمین نے کہا کہ یہ عدلیہ ہے جس نے ایک منتخب وزیر اعظم کو پھانسی دی، 1996 میں منتخب وزیر اعظم بے نظیر بھٹو سے ججوں کی تقرری کا اختیار اس تصور کے تحت چھین لیا کہ ایک خاتون جج کیسے تعینات کر سکتی ہے۔سابق چیف جسٹس افتخار چوہدری کی عدالت دراصل کالا ناگ تھی۔

عدلیہ نے دو منتخب وزیر اعظم کو خط نہ لکھنے پر اور دوسرے کو بیٹے سے تنخواہ نہ لینے پر ہٹا دیا۔ جب ہم نے جمہوریت اور ڈکٹیٹروں سے نجات دلائی تو عدلیہ کو عدالتوں کی آزادی اور قانون کی بالادستی یاد آئی۔ پی پی پی رہنما نے کہا کہ جج کہاں تھے جب آمر جمہوریت پر حملہ کر رہے تھے۔

انہوں نے مزید کہا کہ عدلیہ نے آمر جنرل مشرف کو وردی میں صدارتی الیکشن لڑنے کی اجازت دی اور اس نے آمریت کو تحفظ دیا۔”ججوں نے اپنے اختیارات کو آمروں کی حفاظت کے لیے استعمال کیا۔ عدلیہ نے پارلیمنٹ کو کمزور کرنے کے لیے 58-2 بی کو اپنے ہاتھ میں لیا۔ اس نے جنرل ضیاءالحق کی آمریت کو تحفظ فراہم کیا۔

انہوں نے کہا کہ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ہمیں انصاف فراہم کیا، جسٹس منصور علی شاہ کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ جسٹس منصور علی شاہ خود کہتے ہیں کہ میرٹ کو ترجیح دینی چاہیے، اگر جسٹس منصور علی شاہ میرٹ پر پورے اتریں گے تو ہی چیف جسٹس بن سکیں گے۔

Related Posts