بائیڈن کا ٹوپی ڈرامہ

مقبول خبریں

کالمز

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

موجودہ امریکی صدر جو بائیڈن نے اس سال کے آغاز پر اقتدار سنبھالا تو اشارے دیئے کہ وہ صدارت پر قناعت کا ارادہ نہیں رکھتے۔ انہوں نے حسب روایت کسی نئے صدر کی طرح صدارت کا چارج لے کر اپنے حصےکا کام کرنے کا عندیہ نہ دیا بلکہ حلف اٹھانے سے قبل ہی واضح کردیا تھا کہ ان کا پروگرام بھی نئے پاکستان سے ملتا جلتا”نیا امریکہ” ٹائپ کا ہے۔

اس ضمن میں ان کا سب سے مضحکہ خیز جملہ “امریکہ از بیک” رہا جسے وہ اگلے کئی ماہ دہراتے رہے۔ ان کا یہ جملہ سن کر ہماری تو ہر بار ہنسی ہی چھوٹ جاتی کیونکہ ٹارزن ہمارے بچپن کی یادوں کا بھی حصہ ہے اور ہمارے ہاں ٹارزن کی جو چیز سب سے معروف ہے، وہ “ٹارزن کی واپسی” ہے۔ سو جب بھی جو بائیڈن نے امریکہ از بیک کہا، ہمیں یہی لگا کہ وہ ہمیں ٹارزن کی کہانی سنانے لگے ہیں۔

سوال یہ ہے کہ اگر وہ معمول کا ایک صدر رہنے پر قانع نہیں تو پھر کیا بننا چاہتے ہیں ؟تو جواب بالکل سادہ ہے۔ وہ جارج واشنگٹن نہیں تو ابراھام لنکن بننے کا تو پکا ارادہ رکھتے ہیں۔ مگر وہ شاید یہ نہیں جانتے کہ غیر معمولی رہنماء بولتا کم اور کرتا زیادہ ہے۔

تاریخ کسی بھی شخص کو اس کے “کام” سے یاد رکھتی ہے، نرے دعوؤں سے نہیں جبکہ وہاں امریکہ میں صورتحال یہ ہے کہ بائیڈن نے اپنے بلند بانگ دعوؤں کو حقیقت بنانے کے لئے جتنے بھی “ٹائم میپ” دیئے سب صرف دعوے ہی ثابت ہوئے۔

یہاں تک کہ کورونا ویکسی نیشن کے حوالے سے بھی صورتحال یہ ہے کہ امریکہ کی کل 33 کروڑ کی آبادی میں سےاب تک صرف ساٹھ فیصد شہریوں کو ہی ویکسین لگ سکی ہے۔

اس کے برخلاف جس چین کے خلاف امریکہ سارا سال پروپیگنڈہ کرتا ہے، اس کی “ظالم حکومت” اب تک ایک ارب گیارہ کروڑ لوگوں کی ویکسی نیشن مکمل کرلی ہے۔ شاید یہی ہوتا ہے لبرل ڈیموکریسی اور کنٹرولڈ ڈیموکریسی کا فرق۔

ڈیموکریسی بلکہ ڈیمو کریزی کا ذکر چھڑا ہے تو جو بائیڈن کا نام نہاد ڈیموکریسی سمٹ ان دنوں خبروں میں ہے جس طرح ہمارے ہاں دینی امور کا کارو بار کرنے والے ہمیشہ اسلام کو خطرے میں بتا کر کمائی کرتے ہیں، بعینہ امریکی سیاستدان دوسری جنگ عظیم کے بعد سے مسلسل “جمہوریت خطرے میں ہے” کا الارم بجاتے رہے ہیں۔

اس عرصے میں امریکہ نے دنیا میں جتنے بھی حملے کئے، سب کے سب لبرل جمہوریت کے دفاع کے لئے ہی کئے۔ ان کے بقول یہ صرف لبرل جمہوریت ہی ہے جو انسانی حقوق کا تحفظ یقینی بناتی ہے۔ سو انہوں نے انسانوں کے حقوق محفوظ رکھنے کے لئے کروڑوں انسان مار ڈالے اور اسے فخریہ طور پر بطور کارنامہ بھی بیش کیا جاتا ہے۔

نہ صرف یہ کہ وہ پیش کرتے ہیں بلکہ پاکستان سمیت مختلف ممالک میں موجود ان کے بھاڑے کے ٹٹو بھی لوکل سطح پر اس پروپیگنڈے کو آگے بڑھاتے ہیں لیکن زعفران کا لیبل لگا کر جس جنس کی یہ عناصر مارکیٹنگ کرتے آئے ہیں، اس کے گوبر ہونے کا اندازہ اسی سے لگا لیجئے کہ لبرلزم فرد اور جمہوریت ریاست کی آزادی کے دعویدار ہیں لیکن روس ، چین اور پاکستان سمیت دنیا کا کونسا ملک ہے جہاں امریکہ مداخلت نہیں کرتا ؟۔

جب فرد کو فرد کی زندگی میں دخل کا حق نہیں تو ریاست کو ریاستوں کے داخلی امور میں دخل کا حق کیسے حاصل ہوگیا ؟ بتایا تو ہمیں یہ جاتا ہے کہ پاکستان پر حکمرانی کا فیصلہ پاکستان کے لوگ کریں گے۔ لیکن اگلے دن بیٹھ کر یہی لوگ فخریہ کہتے ہیں۔ “نیا امریکی صدر ہماری موجودہ حکومت قبول نہیں کرے گا۔

دیکھ لینا عمران خان کو فون نہیں ہوگا” اس بات میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان کا موجودہ ہائیبرڈ نظام ہم شہریوں کو قبول نہیں لیکن امریکی صدر کون ہوتا ہے ہمارے اندرونی معاملات میں دخل دینے والا ؟ اور وہ بھی اس حال میں کہ پروپیگنڈہ یہ ہے کہ کسی کو دوسرے کے معاملات میں دخل کا کوئی حق نہیں۔

پاکستانی شہریوں کو اس نظام سے نجات دلانا امریکی صدر نہیں بلکہ ان لیڈروں کی ذمہ داری ہے جو “ووٹ کو عزت دو” جیسے پرکشش نعرے لگا نے کے بعد ان دنوں یہ سن گن لینے میں مصروف ہیں کہ نیا ڈی جی آئی ایس آئی “اچھا آدمی” ہے یا نہیں ؟ اور اس کا اچھا یا برا آدمی ہونا اس بات سے طے ہوگا کہ وہ اپوزیشن لیڈروں کو گھاس ڈالتا ہے یا نہیں۔

اس بات میں کوئی شک ہی نہیں کہ امریکہ پاکستان کے ساتھ معاملات ہمارے جی ایچ کیو کے توسط سے طے کرتا ہے اور ہماری فوجی قیادت اچھی طرح جانتی ہے کہ لبرل ڈیموکریزی کا انسانی حقوق یا فرد کی آزادی سے کوئی لینا دینا نہیں۔

یہ صرف امریکی تسلط کا ٹول ہے۔ جب بات “تسلط” کی آجاتی ہے تو جہاں امریکہ پوری دنیا پر تسلط کے لئے سرگرم رہا ہے وہیں ہمارے جرنیل بھی پاکستان پر تسلط کی کوششیں کرتے آئے ہیں۔

یوں گویا ان کی حکمت عملی وہی ہے جو امریکہ کی ہے۔ فرق بس یہ ہے کہ امریکہ اپنے تسلط کے لئے “انسانی حقوق” کا کارڈ استعمال کرتا ہے جبکہ ہمارے جرنیل “حب الوطنی” کا۔ اب کارڈ تو لوگ حالات کے تقاضوں کے مطابق ایسے ہی تخلیق کرتے ہیں جو پرکشش ہوں۔

موجودہ حالات میں امریکہ کے ساتھ واقعہ یہ ہوگیا ہے کہ یہ ہمیشہ جمہوریت کو جھوٹ موٹ کے خطرات لاحق کرتا رہا ہے۔ اور وہ بھی یوں کہ ایران قابو نہ آئے تو جمہوریت کو لاحق خطرہ ایران کے مقام پر بتا دیا۔ روس قابو نہ آیا تو جمہوریت کو روس سے خطرہ باور کرا دیا۔

اسی طرح چین، شمالی کوریا اور نہ جانے کن ممالک میں اینٹی جمہوریت وائرس کی نشاندہی کی جاتی رہی۔ اس پورے عرصے میں جمہوریت جہاں “مکمل محفوظ” بتائی گئی وہ امریکہ کا حدود اربعہ تھا لیکن اب جمہوریت کو سچ مچ والا خطرہ لاحق ہوگیا ہے اور وہ بھی جمہوریت کے سب سے مضبوط قلعے امریکہ میں اور معاملہ ہے بھی محض امکان کا نہیں بلکہ تباہی کا عمل شروع بھی ہوچکا۔

6 جنوری کو امریکی پارلیمنٹ پر ہونے والا حملہ محض کوئی حادثہ نہ تھا۔ یہ باقاعدہ منصوبہ بند حملہ تھا جس کے پیچھے پوری حکمت عملی کار فرما تھی۔ امریکی نیشنلسٹ صاف کہتے ہیں کہ لبرل ڈیموکریسی کا خاتمہ ان کا ہدف ہے۔

ان حالات میں امریکی تاریخ کا سب سے معمر صدارتی امیدوار ہی امریکیوں کے لئے امید کی کرن رہ گیا تو لبرل ڈیموریسی کی تجہیز و تکفین کی تیاری کر لینی چاہئے اور یہی وہ حالات ہیں جن میں جو بائیڈن کو لگا کہ وہ جارج واشنگٹن اور ابراھام لنکن کی صف میں کھڑا ہوسکتا ہے۔ مگر ابراھام لنکن کوئی ڈرامے باز نہیں تھا۔ وہ ایک بہت ہی سنجیدہ اور بیحد فکر مند شخص تھا۔

اس نے امریکی سول وار کے دوران یہ ڈرامے نہیں کئے کہ خطرہ تو اندرونی ہو مگر وہ بتا اسے خارجی رہا ہو۔ وہ داخلی خطرے کو داخلی بتا کر ہی اس پر فوکسڈ ہوا اور تاریخی اقدامات کے ذریعے تاریخ میں امر ہوگیا۔

جو بائیڈن کا تو حال یہ ہے کہ لبرل ڈیموکریزی کو خطرہ داخلی لاحق ہے اور یہ تدارک کے لئے اقدامات خارجی سطح پر کر رہے ہیں۔ خطرہ ڈونلڈ ٹرمپ اور مریکی نیشنلسٹ ہیں جبکہ یہ موصوف اب تک چین اور روس کو ہی خطرہ بتانے پر مصر ہیں۔

ہونا یہ چاہئے کہ وہ امریکی قیادت کی کوئی “دفاع جمہوریت کانفرنس” منعقد کرکے داخلی خطرے کے سد باب کی کوششیں کرتے۔ مگر وہ عالمی سمٹ منعقد کرکے یہ پیغام دے رہے ہیں کہ تائیوان جمہوریت ہے اور چین آمریت۔ اب یہ کتنا بڑا ڈرامہ ہے اس کا اندازہ اسی سے لگا لیجئے کہ تائیوان سرے سے ریاست ہی نہیں ہے۔

اس وقت دنیا میں تائیوان نام کا کوئی “ملک” موجود نہیں۔ جس حدود اربعہ کو تائیوان کہا جاتا ہے اسے بطور ملک دنیا کے صرف 15 ممالک نے ہی تسلیم کیا ہے اور ان ممالک میں بھی سب سے معروف دو نام گوئٹے مالا اور ہیٹی ہیں۔

باقی ممالک اتنے غیر معروف ہیں کہ ان کے نام کا اردو تلفظ بھی ہمارے تو بس سے باہر ہے۔ خود امریکہ یا یورپ کے کسی ملک نے بھی اسے بطور ملک تسلیم نہیں کر رکھا۔ لیکن حضرت جو بائیڈن کی عظیم الشان ڈیموکریسی سمٹ میں یہ تائیوان بھی مدعو تھا۔

اب اسی سے اندازہ لگا لیجئے کہ بائیڈن کے اس ٹوپی ڈرامے کی اصل حقیقت کیا تھی۔ ایسے ٹوپی ڈرامے میں شریک نہ ہوکر پاکستان نے بالکل ٹھیک کیا ہے۔ ہم کیوں دنیا کے سے سب سے بدترین استعماری نظام کی فکر کریں ؟ ہم تو اس کے سوئم اور چہلم میں شریک ہوں گے !

Related Posts